جمعہ، 23 ستمبر، 2016

پہلی اڑان 

"زندگی کبھی بھی اتنی آسان نہ تھی ہمیشہ مصائب ایک کے بعد ایک قطار لگائے کھڑے ملے مگر یہ تو انتہا ہے نا بن باپ کی بچی! ارے وہ تو ناداں ہے معصوم ہے مگر تم تو سمجھدار ہو؟ پرائے دیس میں بھیج رہی ہو کوئی مصیبت آن پڑی تو کیا کرو گی" امّاں کی جھنجلائی ہوئی آواز پر سلطانہ نے کان نہیں دھرا اسکی انگلیاں تیزی سے فریم میں پھنسے ہوئے کپڑے پر کڑھائی کرتے ہوئے دھاگوں سے الجھی ہوئی تھیں اور ذہن ہادیہ کے مستقبل میں !
الله کی حکمت وہی جانے .. سلطانہ کو الله نے صرف ایک ہی اولاد سے نوازا تھا مگر اسے بھی دونوں ہاتھوں سے محروم رکھا تھا . سلطانہ اور اسکے شوہر ایاز نے کبھی اس بات کا گلہ نہیں کیا تھا ایاز نے ہمیشہ اپنی بیٹی کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھا ہر سرد و گرم سے بچا کے رکھا مگر اسکے باوجود اسے سب کچھ سکھایا ہاتھوں کے بغیر بھی ہادیہ ایک صحت مند انسان کی طرح سارے کام سرانجام دیتی تھی وہ اپنے ہاتھوں کی جگہ پیروں کا استعمال کرتی. منہ ہاتھ دھونا ، لکھنا پڑھنا ،اپنے کپڑے استری کرنا سب ہی کچھ اسکے لیے بہت آسان تھا ہادیہ کو ڈرائنگ کا بہت شوق تھا دھیرے دھیرے اسکا شوق اتنا بڑھا کہ ساتویں جماعت تک اپنے پیروں کی مدد سے وہ انتہائی خوبصورت پینٹنگ بنانے لگی تھی . ایاز نے ہمیشہ اسے نماز پڑھ کر سب سے پہلے الله سے مدد مانگنا سکھایا تھا ! اسے جب کوئی مشکل پیش آتی وہ ضرور نماز پڑھ کر دعا کرتی اور الله پر اس اندھے اعتماد نے اسے کبھی مایوس نہیں ہونے دیا تھا . الله کی مدد اور اپنے والدین کی طرف سے ملنے والے اعتماد نے اسکی شخصیت کو نکھار کر چار چاند لگا دیے تھے اس نے کبھی خود کو کمتر نہیں سمجھا . مگر جب وہ میٹرک میں آئی تو ایک حادثے میں ایاز کا انتقال ہوگیا سلطانہ کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا . وہ ہادیہ کو لے کر اپنی امّاں کے پاس آگئی انکی زندگی پہلے ہی بہت تنگ تھی مگر بیٹی کی اس مشکل گھڑی میں انہوں نے اسے سہارا دیا. انکا ایک آبائی وسیع و عریض گھر تھا جس کے کھلے اور کشادہ صحن میں لگے نیم اور پیپل کے درخت اپنی ٹھنڈی چھاؤں سے گھر پر سایہ کیے رکھتےتھے. پیپل کے درخت پر چڑیوں کا ایک جوڑا رہتا تھا کچھ ہی دن پہلے اس میں سے ننھی آوازوں نے انڈے سے بچوں کے نکلنے کا پتہ دیا تھا . سلطانہ اکثر چڑیوں کی مخصوص آوازوں اور کھلانے کے طریقوں پر غور کرتی اور مسکراتی رہتی تھی.
ہادیہ انٹرنیشنل لیول پر منعقد ہونے والے پینٹنگ کے مقابلے میں حصہ لینا چاہ رہی تھی جبکہ سلطانہ گھبراہٹ کاشکار تھی کہ دونوں ہاتھوں سے معذور بچی بھلا اتنے بڑے پیمانے پر نارمل بچوں کے مقابلے پر پینٹنگ کرسکے گی؟" یہ خیال اسے ایاز کی زندگی میں کبھی نہ آتا مگر شاید ایاز کی موت نے اسے بزدل بنا دیا تھا وہ اپنی گھبراہٹ ظاہر نہیں کررہی تھی اور اس نے بظاہر ماں لیا تھا کہ ہادیہ اس مقابلے میں شریک ہوگی. جب سے یہ بات امّاں نے سنی تھی بہت ناراض ہورہی تھیں انکے خیال میں ہادیہ کو گھر پر مکمل اپنی نگرانی میں رکھنا چاہیے اسے بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہے .. امّاں کا انکار اور ہادیہ کا اصرار سلطانہ کو شش و پنج میں ڈالے ہوئے تھے .
اسی دم چوں چوں کی بے شمار آوازوں نے جیسے کھلے صحن میں شور سا ڈال دیا امّاں اپنی جھنجلاہٹ اور سلطانہ اپنی الجھنیں بھول کر چڑیوں کو ڈھونڈنے لگیں " ارے کل تک تو منہ میں چونچ ڈال ڈال کر کھلا رہے تھے بچوں کو آج دیکھو کیسے سر پر سوار ہو کر چلا رہے ہیں کہ اڑتا ہے یا ایک لگاؤں ؟" امّاں ان پرندوں کو دیکھ کر محبت سے مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھیں سلطانہ نے غور سے کچھ دیر یہ منظر دیکھا تھا . کچھ دنوں پہلے کی تو بات ہے جب بچے انڈوں سے باہر نکلے تو ماں باپ کیسے ہر دم انکی حفاظت کیا کرتے تھے اور آج جب انکے اڑان بھرنے کا وقت آیا تو سارے خوف بھلا کراسے اڑنا سکھا رہے تھے.
"السلام علیکم " ہا دیہ کی آواز پر سلطانہ نے چونک کر اسے دیکھا بجھا ہوا چہرہ پژمردہ انداز یہ وہ ہادیہ تو نہیں تھی جسے اس نے اور اسکے شوہر نے زمانے کی سختیوں کے سامنے جم کر کھڑے ہونا سکھایا تھا یہ تو ایک مایوس سی بچی ہے جس کی ماں اسے صرف ایک کمزوری کی وجہ سے اسکے شوق سے محروم کرنا چاہتی تھی . چوں چوں کا شور اب بھی باقی تھا دو بچے اڑ چکے تھے ایک باقی تھا خوف اور گھبراہٹ کا شکار چڑیا بار بار ہوا میں تیرتی اسے اسکی منزل کا پتہ بتاتی اور پھر واپس آکر اسکے پاس بیٹھ جاتی چوں چوں چوں میں چھپی ڈانٹ ڈپٹ اور شفقت آمیز دھمکیاں!! سلطانہ نے نظروں کا رخ موڑ کر ہادیہ کی طرف دیکھا وہ بیگ ایک طرف رکھ کر پیروں کی مدد سے جوتے موزے اتار رہی تھی پھر اسکا رخ صحن میں لگے نلکے کی طرف ہوگیا " امی کل آخری تاریخ ہے فارم جمع کروانے کی آپ تو شاید اجازت نہ دیں نانی جان بھی نہ مانیں تو میں نے سوچا ہے کہ منع کردوں گی حالانکہ آج تو سر مبشر بھی آئے تھے مجھے خاص کر حصہ لینے کا کہہ رہے تھے مقابلے میں" وہ بہت آرام سے سٹول پر بیٹھی اپنے پیروں کی مدد سے وضو کر رہی تھی وہ نماز کی بہت پابند تھی اس نے کبھی ظہر کی نماز ادا کیے بغیر کھانا نہیں کھایا تھا . ایاز نے اسے ہمیشہ سب سے پہلے الله سے مانگنا سکھایا تھا یہ سبق وہ کبھی نہیں بھولی تھی ! ایک مطمئن مسکراہٹ سلطانہ کے لبوں پر بکھر گئی . امّاں بھی جیسے تڑپ کر رہ گئیں اتنی سنجیدہ تو وہ کبھی نہیں رہی تھی.
چوں چوں چوں ... آوازیں کانوں میں مستقل آرہی تھیں . الله نے انسان کے سوا ہر جاندار کو تعلیم دے کر بھیجا ہے کیسے کھانا ہے کیسے رہنا ہے کیسے پالنا ہے کیسے تربیت کرنا ہے کیسے راہ دکھانا ہے !! انسان کو سیکھنا پڑتا ہے وقت لگتا ہے مگر وہ سیکھ جاتا ہے اگر سیکھنا چاہے!!
اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا۔
انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔
پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔
جس نے قلم سے سکھایا۔
انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔
" ہادیہ ! تم اپنے سر مبشر کو کہنا تمہارا فارم فل کردیں ضروری ڈاکومنٹس مجھے بتادیں میں بھیج دوں گی .. ایاز اگر آج ہوتے تو ہم فارم کی آخری تاریخ کا انتظار نہ کررہے ہوتے ! کیوں امّاں؟؟ " سلطانہ نے اپنی امّاں کی طرف دیکھا جو جواب دیے بغیر آگے بڑھ کر ہادیہ کا ماتھا چوم رہی تھیں . چوں چوں کی آوازیں رک گئیں تھیں سلطانہ نے گردن موڑ کر دیکھا وہ ننھا منا سا ڈرپوک بچہ اڑان بھر چکا تھا ماں باپ کی خوشی کی انتہا نہیں تھی .

بدھ، 3 فروری، 2016

کن  فیکون   

ایک بات ہے.....! اللہ تعالی ہمیں کسی اورچیز کی محبت میں مبتلا ہونے ہی نہیں دیتا! جس چیز کےبارے میں گمان ہونے لگے کہ اسکے بغیر نہیں رہ سکیں گے.. وہی چیز چھن جاتی ہے بدلےمیں بہترین چیز ملتی ہے مگر شروع میں احساس نہیں ہوتا کہ ہمیں بہترین بدل دیا گیا ہے!! اللہ پاک کی نعمتوں کا ادراک خود پر کیسے کریں؟؟ وہ ہمیں سب سے مایوس کر کے اپنی طرف بلاتا ہے... یہ انعام ہے ناں؟
__________________________________________________________
میرے گھر میں ایک لڑکی کام کرنے آتی تھی ..فرضی نام سعدیہ رکھ لیتے ہیں ... جب میری بیٹی دو ماہ کی تھی (جو کہ اب ١٤ سال کی ہے ) تب سے میرے ساتھ ہے ، انتہائی محبت اور پیار کرنے والی بچوں پر جان چھڑکنے والی ! پڑھی لکھی نہیں تھی مگر ہنر مند تھی دنیا کا کوئی کام ہی ہو شاید اسے آتا نہ ہو پتلی میں ڈھکن پھنس گیا ،.. سعدیہ نکالے گی ، پنکھے کا capacitor خراب ہوگیا سعدیہ ٹھیک کردے گی ، موبائل میں خرابی ہے ... سعدیہ ہے ناں ! آج مہمان انے والے ہیں دعوت کا مینو سعدیہ بتاۓ گی اور پھر چیزیں بھی ووہی مہیا کرے گی اسکے علاوہ کوئی گڑبڑ ہوگئی پکانے کے دوران تو سعدیہ ٹھیک کرے گی ، کسی کی طبیت خراب ہے سعدیہ کو پتہ ہے ٹوٹکے کا ، کڑی پتہ چاہیے سعدیہ کو درخت کا پتہ ہے ، بال کالے کرنے ہیں؟ سعدیہ مہندی لاکر دینگی جو بالوں کو لال نہیں کرے گی ، وزن بڑھ رہا ہے؟؟ سعدیہ کو پتہ ہے کے مسور کی دال شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کو کس فرق کے ساتھ ابالنا اور پینا ہے ! وہ مصالحوں کے دبے بغیر پڑھے پہچانتی تھی جو کہو بہت آرام سے وہی نکال لاتی سب اکثر حیران ہوتے .. سعدیہ تم پڑھنا نہیں جانتی تو کیسے پہچانتی ہو یہ نام ؟ وہ بہت مزے سے کہتی " کون کہتا ہے میں پڑھنا نہیں جانتی؟ phd کیا ہوا ہے میں نے " مجھے ہنسی آجاتی واقعی پی ایچ ڈی ہے تو !
پھر ایک وقت آیا وہ مجھ سے اور میں اس سے الگ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ... وہ کہتی ثمر باجی ! جب میں بوڑھی ہوجاؤنگی تو مجھے اور تو کوئی نہیں پوچھے گا آپ کے پاس رہوں گی آکر ! آپ مجھے پڑھانا میں آپکے کھانے بنا دیا کروں گی ! اس نے شادی نہیں کی تھی بھائی کے بچوں کو پڑھانا اور انکو بہترین مستقبل دینا اسکا واحد خواب تھا اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوۓ کہ آج جو محبت وہ ان بچوں سے کرتی ہے اور جس طرح ان پر جان چھڑکتی ہے اس طرح نہ بھائی اسکی قدر کریں گے نہ ہی اسکے بچے ! میں ہنس کر کہتی تم نہ بھی کہو تو بھی مجھے تمہارا پیچھا نہیں چھوڑنا .. میں اسکی قربانیوں کا سارا حال جانتی تھی اس نے کس طرح اپنے والدین کی خدمت کی .. اسکا باپ شرابی تھا اکثر نشہ کر کے گھر آتا اور مار پیٹ کرتا وہ اپنی ماں کو بچاتی خود زخمی ہوجاتی سب سہہ جاتی مار اپنے باپ کے لیے بھی دعا ہی کرتی پھر جب اسکے باپ کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ معذور ہوگیا تو میں نے ایک بار سعدیہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے " اچھا ہوا ثمر باجی ! وہ بیمار ہوگیا اب کم از کم نشہ تو نہیں کرے گا ناں؟؟ مزید گناہ کمائے ، اس سے بہتر ہے معذور رہے مجھے اسکی خدمت بار نہیں ! اور واقعی اس نے ثابت کیا کہ اسے خدمت بوجھ نہیں لگی کبھی ، پورے چار سال وہ بستر پر رہا مگر سعدیہ اور اسکے بھائیوں نے اسکی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی .. میں ان سب باتوں کو جانتی تھی اور دل سے اس بہادر لڑکی کی قدر کرتی تھی ! ہمارے درمیان مالک اور نوکر والا کوئی رشتہ نہیں تھا ... کچھ لوگ اس بات کو بالکل برداشت نہیں کر پاتے تھے کبھی اسکو میری نیت پر مشکوک کرتے کبھی مجھے اسکی اوقات یاد دلاتے ، مگر عجب خاموش معاہدہ تھا ہمارے درمیان نہ میں اسکی مخالفت کرتی نہ اسکے دل میں میری طرف سے بال آیا .. ہم کبھی ایک دوسرے کو لوگوں کی بات بتاتے کبھی مصلحتا نہ بھی بتاتے لیکن ایک بات طے تھی کہ ہم کبھی ایک دوسرے سے بد دل نہ ہوتے . گھریلو معاملات ہوں یا باہر کے ملکی ہوں یا غیر ملکی ہم سب ڈسکس کرتے ، اسے پڑھنے کا شوق نہیں تھا بڑے فخر سے بتاتی تھی کہ بچپن میں ابّا نے اسکول میں داخل کروایا مگر وہاں کسی استانی نے ڈانٹا .. میں بھلا کسی کی ڈانٹ کھالوں؟؟ آدھی چھٹی ہوئی تو اسی ٹیچر کے سر پر پتھر مار کر بھاگی اسکا سر پھٹ گیا وہ دن اور آج کا دن میں کبھی اسکول نہیں گئی !! مگر اسکے باوجود اسکی معلومات زبردست تھی .
میں نے سالہا سال کی محنت کے بعد اسکے دل میں یہ شوق جگایا ، اسنے پڑھنا شروع کیا.. ایک سال میں وہ قران مجید کی دو سورتیں پڑھ چکی تھی اور ساتھ ساتھ اردو کے چھوٹے موٹے حروف بھی ! ہماری محبتوں کا یہ عرصہ اتنا لمبا ہوگیا کہ ہم اس محبت کو اپنا کمال سمجھنے لگے ... ہم کبھی ایک دوسرے سے بد دل نہیں ہوسکتے ، ہم کبھی ایک دوسرے کا برا نہیں چاہ سکتے ، ہمیں کوئی الگ نہیں کر سکتا !! ایسے میں شاید ہم دونوں ہی الله کی عظیم ذات پاک کو فراموش کر چکے تھے ! ہم کیا ہماری اوقات کیا؟؟ جب اسکی عظمت پر بات آجاۓ تو وہ ثابت کر ہی دیتا ہے کہ صرف میری ہی ذات ہے جو بے عیب جسکے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا جو دلوں میں محبت ڈالتا بھی ہے اور اسی کمال سے نکال بھی لیتا ہے کہ بے قدر انسان ایک دوسرے کی خامیاں گنواتے اور ایک دوسرے کو الزام دیتے رہ جاتے ہیں !
میرے دل میں ایک دن بیٹھے بیٹھے ایک عجیب خیال آیا اور اس ایک خیال نے میری دنیا میں انقلاب برپا کردیا !...........





مجھے کئی سالوں سے یہ خوش فہمی لاحق تھی کہ مجھے الله نے بات کرنے کا بہترین ڈھنگ اور انداز دیا ہوا ہے . میں کسی سے کوئی بھی بات بڑی آسانی سے منوا لیا کرتی تھی ، اس انداز گفتگو کے ساتھ مجھے تھوڑا بہت دینی و دنیاوی علم بھی حاصل تھا جسکے ساتھ میں لوگوں کو بہت مہارت کے ساتھ اپنی بات پر قائل کرلیتی تھی . میرے گھر والے خاص طور پر ساس سسر میری تعریف میں رطب السان رہتے تھے ، سچ تو یہ کہ میں تمام کام الله کی رضا کے لیے ہی کرتی اور میری نیت بھی صاف اور کھری ہوتی تھی بہت کم ہی میں کسی کا برا سوچتی تھی ، اور عمل تو کبھی نہیں کرتی . شاید الله پر یہ بھروسہ اور نیت کا یہ کھرا پن ہی میری اتنی کامیابیوں کا باعث ہو ! مگر سعدیہ کے معاملے میں میرے ساتھ کچھ عجیب ہی ہوا . چلیں میں آپکو تفصیل سے بتاتی ہوں ...
میرا ایک بھائی تھا جو کہ سننے اور بولنے سے محروم تھا کافی جگہ اسکے رشتے کی بات چلائی تھی ایک جگہ کسی نے ایک نابینا لڑکی کا مشورہ دیا مگر امی پریشان تھیں کہ ایک بول نہ سکے، سن نہ سکے اور دوسرا دیکھ نہ سکے تو کیسے زندگی کی گاڑی چلے گی؟؟ مجھے بھی اتفاق تھا اس بات سے ... پھر ہم نے سعدیہ سے بات کی کسی کا رشتہ بتاۓ ، اسجد (میرا بھائی ) کے لیے ... وہ انتہائی ذمہ دار اور سمجھدار لڑکا تھا ، بس ایک ظاہری عیب نے اسکو دنیا کے لیے ناقابل قبول بنا دیا تھا ، یا شاید ہمیں کچھ جلدی تھی ورنہ الله نے تو بعد میں اسکے نصیب ایسے کھولے کہ زمانہ حیران رہ گیا ! ہان تو میں بتا رہی تھی کہ سعدیہ نے چند رشتے بتاۓ مگر بات نہ بنی . ایسے ہی ایک دن ایک جگہ کچھ لوگ اسجد کو ناپسند کر کے گئے امی بہت دل برداشتہ سی ہو رہی تھیں میں اور سعدیہ امی کے پاس بیٹھی انکو حوصلہ دے رہے تھے " امی آپ فکر نہ کریں یہ سب لوگ خود دل کے اندھے ہیں اس لئے انکو کوئی بے عیب کیسے نظر آئیگا؟" امی کے آنسو دیکھ کر سعدیہ ہمیشہ کی طرح جذباتی ہوگئی ، وہ امی سے بہت محبت کرتی تھی بالکل اپنی امی کی طرح ! اچانک ایک عجیب خیال میرے دل میں آیا (تو پھر سعدیہ ہی کیوں نہیں؟) مگر میں اس وقت خاموش ہوگئی . مجھے معلوم تھا کہ ہمارے اپنے گھر میں کوئی تیّار نہیں ہوگا شاید امی بھی نہیں باوجود اسکے کہ وہ سعدیہ سے بے پناہ محبت کرتی ہوں !
پھر میں نے موقعہ نکال کر امی سے بات کی " نہیں بیٹا تمھارے ابّا کہاں مانیں گے؟؟ " امی نے چھوٹتے ہی سارا بار ابّا کے سر ڈال دیا . اور آپ راضی ہیں؟؟ میں نے کھوجتی نگاہوں سے امی کو دیکھا چہرے پر تذبذب کی لہر ! میں خاموش ہوگئی " امی دیکھ لیں ، اسکی محبت اور خلوص گھر کو گھر بنا دینگے اور پھر جہاں بھر کی تجربے کاری ہے اس میں آپ تو جانتی ہی ہیں سب؟ جو کام ہم جیسی پڑھی لکھی لڑکیاں بھی نہ کر پائیں اکیلے وہ کر لیتی ہے ، اسجد کو سنبھال لے گی آکر. تعلیم کی کمی ہے وہ بھی دھیرے دھیرے کور ہوجاۓ گی پڑھ رہی ہے ، باقی آپ خود پڑھا لیجے گے آپ تو خود ماشااللہ پرنسپل رہی ہیں کالج کی ! خاندان بھی اچھا ہے اسکا غربت کی وجہ سے گھر سے نکلی ہے مجبورا آپ کے پاس آجاۓ گی تو اسکو یہ ضرورت بھی نہیں رہے گی ". "مگر تم نے تو کچھ اور بتایا تھا اسکے بارے میں ؟ " امی نے مجھے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی جو میں قطعی یاد کرنے کے موڈ میں نہیں تھی "پیار ویار عشق محبت ! یہ سب شادی سے پہلے کے ڈرامے ہوتے ہیں جب شادی ہوجاتی ہے تو سب ٹھیک ہوجاتے ہیں ، اور پھر ہم اچھی ہی طرح سے رکھیں گے اسکو اس حالت سے کہیں اچھی حالت میں رہے گی وہ آپ صرف رضامندی ظاہر تو کریں " امی سوچ میں پڑ گئیں "سعدیہ سے بات کرنے سے پہلے تمھارے ابّا سے بات کرنا ہوگی "
" اس سے پہلے آپ خود کو راضی کریں دل ماں جاۓ تو بتا دیجیے گا جلدی کوئی نہیں مگر خواہ مخواہ دیر بھی ٹھیک نہیں !" پھر امی کئی بار میرے گھر آئیں میری بات کے بعد سے انکا زاویہ نگاہ تبدیل ہوا ہوگا اور وہ تھوڑا الگ رخ سے اس پر غور کرنے لگی تھیں. ایسا ہی ایک دن تھا میں امی سے باتوں میں مشغول تھی ٩ بجے سعدیہ ہمارے گھر آئی سفید رنگ کا خوبصورت چکن کے سوٹ میں ملبوس دھلا دھلایا سراپا ، عجیب سی رونق اور نور اسکے چہرے تھا . امی بے اختیار ماشااللہ کہ اٹھیں ! وہ گویا شرمندہ سی ہوگئی " امی آج مدرسے میں ٹیسٹ ہے ناں تو ٹیسٹ والے دن یونیفارم میں جانا ہوتا ہے ، تو میں گھر سے پہن کر آگئی سب کو بتا دوں گی کہ آج کام کم کرونگی میرا ٹیسٹ ہے"
مجھے ہنسی آگئی" کیا بات ہے کیا بات ہے سعدیہ باجی کی" میں بہت پیار آنے پر اسے سعدیہ باجی ہی کہا کرتی تھی . "ا اچھا تو الله نے اتنی اچھی صورت دی ہے اب تو شادی کر ہی لو سعدیہ ! بڑھاپے میں آسرا رہے گا !" امی کی بات پر میرا دل بیٹھنے لگا ( الله خیر امی کہیں اس وقت نہ کہہ جایئں، مجھے تو انتہائی اچھے موقع کو دیکھ کر حالات اپنے حق میں سازگار کرنے کے بعد بات چھیڑنی تھی ) اف میرا سمجھداری کا زعم ! " نہیں امی شادی تو میرے راستے میں کسی موڑ کا نام ہی نہیں ابھی مجھے بہت کچھ کرنا ہے " وہی پرانی بات کہتے ہوۓ اس نے مدد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا جسے کہہ رہی ہو ثمر باجی ! آپ تو سب جانتی ہی ہیں ناں؟؟ "
" امی چلیں ذرا بھنڈی کٹوا دیں ناں بہت دیر لگتی ہے " میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور امی کو دوسری طرف لگایا.
وہ دن تو خیر و عافیت سے گزر گیا مگر ایک دن وہ حسب عادت اسجد کی تعریف کر رہی تھی کہ بے ساختہ ہی امی کہہ اٹھیں " تو سعدیہ تم ہی کر لو اسجد سے شادی" پل بھر کو جیسے اسکو سانپ سونگھ گیا . "
پھر وہ ہنس پڑی " میں تو اب جنت میں شادی کروں گی اسی سے جس کو آج تک نہیں بھول پائی" میں نے شکر کا کلمہ پڑھا کہ اس نے برا تو نہیں مانا کم سے کم !" مگر دیکھ لو سعدیہ کوئی حرج تو نہیں" اسکی ہنسی کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ میں بے اختیار کہہ گئی " مجھے بڑا آسرا ہے تمہارا سعدیہ " لوہا گرم دیکھ کر میں نے ایک اور چوٹ لگائی اور سعدیہ کے چہرے پر تاریکی لہرا گئی .
مھے شک نہیں ہے یقین ہے کہ یہ وہ جملہ تھا جو شاید سعدیہ کو اتنا برا نہیں لگا تھا جتنا میرے رب کو !

اسکے چہرے کی تاریکی دیکھ کر میرے دل کو کچھ ہوا تھا ، میں نے امی کی طرف دیکھا (کہاں تو امی ابا سے بات کے بغیر یہ فیصلہ کرنے کو تیار نہیں تھیں اور کہاں ان سے بات کیے بغیر اتنی جلدی مچا دی ، اور مجھے بھی جانے کیا ہوگیا تھا ! ) میں نے شکوہ کرتی نظریں امی پر ڈالی پھر اپنے آپ کو ملامت کی ! پھر سعدیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ ہنسنے لگی ،" چلو چلو کام نمٹاؤ اپنا باتوں میں وقت برباد کرتی ہو اور روز مجھے کہتی ہو آئندہ باتیں نہیں کرونگی سارا وقت نکل جاتا ہے آپ کی باتیں ختم نہیں ہوتیں ! " میں نے بھرپور کوشش کی تھی کہ میری باتوں کا تاثر زائل ہوجاۓ اور وہ اس بات کو مذاق سمجھ کر اپنے کام میں لگ جاۓ ، اور اس وقت تو ایسا ہی ہوا . وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں لگ گئی .
پھر تین ماہ گزر گئے ، رمضان کی تیاریوں میں ، میں اس بات کو تقریباً بھول ہی چکی تھی امی کا دھیان بھی اب دوسری طرف مرکوز ہوگیا اور ہمارے لیے جیسے اس بات کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ، فلحال اسجد کے رشتے کی تلاش بھی رک گئی ویسے بھی رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا مصروفیت بڑھ گئی تھی ساتھ ساتھ میرا قرآن مجید کی تلاوت کا جنوں بھی ! میں سعدیہ سے اکثر کام کہہ کر اپنی مصروفیت میں لگ جاتی ، مگر میں کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ کہ جتنے خلوص اور لگن کے ساتھ وہ پہلے کام کرتی تھی آجکل نہیں کر رہی ہے ... میں نے سوچا شاید طبیعت ٹھیک نہ ہو یا کوئی گھریلو پریشانی ہو جس کی وجہ سے اکثر اسکی بے توجہی بڑھ جاتی تھی ، پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عید قریب ہے اور وہ سب گھر والوں کے کپڑوں کے بارے میں پریشان ہو ، میں زیادہ تر اسکو رمضان سے پہلے ہی پیسے دے دیا کرتی تھی مگر اس بار میرے ذھن سے نکل گیا تھا . میں نے اس کے سامنے ذکر چھیڑنے کا فیصلہ کیا . " ثمر باجی سب کام ہوگئے ہیں اب میں چلوں ؟" سعدیہ میرے پاس آئ "سموسے بنوانے تھے ناں آج ؟ دوبارہ آؤ گی پھر؟" میں نے غور سے اسے دیکھا " دوبارہ؟" وہ سوچنے لگی کئی منٹ گزر گئے بلآخر میں نے اسکو دوبارہ مخاطب کیا "سعدیہ ! "" جی؟" وہ ایکدم چونک سی گئی " تم ٹھیک ہو ناں؟" میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو بٹھایا وہ گہری سانس لے کر رہ گئی " جی" تم کیوں کچھ دنوں سے عجیب حرکتیں کرنے لگی ہو؟ کچھ کہا جاتا ہے کچھ سنتی ہو بیٹھے بیٹھے غائب ہوجاتی ہو ؟" میرے کہنے پر وہ کچھ دیر سر جھکا کر بیٹھ گئی "مجھے خود نہیں پتہ بس مجھے سب سے نفرت ہورہی ہے " پھر اچانک اس نے سر اٹھایا " اور سب سے زیادہ تکلیف دہ یہ ہے کہ مجھے سب سے زیادہ نفرت آپ سے ہورہی ہے" میرا دل اسکی بات پر ایک لمحے کو رک گیا "مجھ سے؟" پھر میں ہنس پڑی " توبہ پوری پاگل ہوگئی ہو تم ، اور یہ نفرت بھی ویسی ہی ہوگی ناں جیسے تم نے ایک بار اپنی عزیز ترین دوست نائلہ سے محسوس کی تھی؟" "ہان بالکل ویسی ہی بغیر کسی وجہ کے " لمحے بھر کو وہ خاموش ہوئی جیسے الفاظ ترتیب دے رہی ہو میں نے اسے ٹوکا نہیں "مجھے لگتا ہے ہماری محبت کو کسی کی نظر لگ گئی ہے ، مجھے کوئی دعا بتائیں باجی ! میرے دل کی کیفیت عجیب ترین ہورہی ہے میں آپ سے دور نہیں رہ سکتی " وہ ایک دم ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو میں سچ مچ گھبرا گئی " اچھا اچھا تم رو مت میں ابھی دعائیں بتاتی ہوں تمہیں الله بہتر کرے گا" میں نے اسے گلے لگا لیا " مگر سعدیہ اسکی کوئی وجہ تو ہوگی ناں؟؟ کوئی بات بری لگی ہے تمہیں میری؟ مجھے سچ میں یاد نہیں اگر ایسا کچھ ہوا ہو یا میں نے کبھی کچھ کہہ دیا ہو ؟ پھر بھی میں معذرت کرتی ہوں" مجھے واقعی کچھ یاد نہیں آیا مگر اسکا مستقل عجیب رویہ بار بار یاد آرہا تھا اور ذہن اس الجھن میں تھا کہ پہلی بار اسکا یہ عجیب رویہ کب ہوا اور کس بات پر؟ مگر مجھے کچھ یاد نہ آیا . یاد بے شک نہ آیا ہو مگر محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ غلط ہوا ہے .... کیا ؟ اس نکتے پر آکر بے بسی طاری ہوجاتی . سعدیہ بھی کچھ بتا نہیں پا رہی تھی ، مگر اسکی یہ بات کہ " مجھے سب سے زیادہ نفرت آپ سے محسوس ہورہی ہے " یہ میرے لیے عجب ذلت آمیز احساس تھا جسکو میں نے بھرپور ظرف کے ساتھ نظر انداز کرنے کی کوشش کی تھی ، ساتھ ساتھ اسے یہ تسلی بھی دی کہ ہم کبھی جدا نہیں ہونگے ، تم ابھی پریشان ہو دباؤ کا شکار ہو ٹھیک ہوجاۓ گا سب " پتہ نہیں اس نے میری بات سمجھنے کی کوشش کی یا نہیں مگر مجھے یہ سب کہنے کے بعد وہ اور زیادہ کام سے لاپرواہ ہوگئی. میں اسکی تمام تر لاپروائی کو اسکی ذہنی الجھن کا نتیجه سمجھ کر نظر انداز کرتی رہی ، رمضان کا مبارک مہینہ اپنے اختتام پر تھا چوبیس روزے مکمل ہوگے تھے آج کی رات عبادت کی رات تھی میں افطار کی تیاریوں میں مصروف تھی ساتھ ساتھ سعدیہ کو کام کی ہدایت بھی دے رہی تھی جو اسے عید کے حوالے سے انجام دینے تھے ، کافی دیر بولتے رہنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ سعدیہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا ... " سعدیہ!" میں نے زور سے آواز دی تو ویکیوم کرتے ہوۓ اسکے ہاتھ رک گئے اس نے میری طرف دیکھا "جی؟" "تم میری بات سن رہی ہو؟" میں نے خفگی سے اسے دیکھا " نہیں " وہ روکھے پن سے مسکرائی " میں دبئی جانے کا ارادہ کر رہی ہوں " "کیا؟" بالکل موضوع سے الگ اور حیرت انگیز بات سن کر میری چیخ نکل گئی " اور تم تو کہتی تھی میں کبھی اپنا ملک چھوڑ کر نہیں جاؤنگی ؟ تمہیں فرزانہ آپا (میری کزن) نے کینیڈا میں کتنا بلایا مگر تم نہیں مانی .. میں نے بھی کہا تھا اس وقت تو تمھارے ابّو کی حالت بھی اتنی خراب تھی انکا علاج کتنا سہل ہوجاتا ؟ اور وہ ڈاکٹر صاحبہ نے سعودی عرب بلایا مگر تم نے حامی نہ بھری ، اب ایسی کون سی ضرورت رہ گئی ہے جسکے لیے تم باہر جاؤ گی ؟ " " ضرورتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں ثمر باجی ! زندگی کے ساتھ چلتی ہیں اب بچے بڑے ہورہے ہیں انکا خرچہ پورا نہیں پڑتا اسکول مدرسہ کتابیں کپڑے جوتے ... کوئی ایک ضرورت ہے؟" وہ مجھے بے اطمنان کر کے خود اطمنان سے اپنے کام میں مصروف ہوچکی تھی . اسکا یہ انداز ناقابل برداشت تھا میرے لیے .
"تمہں لگتا ہے کہ باہر جانا تمہاری ضرورت ہے یا مجھے چھوڑ دینا تمہاری خواہش؟" میرے دل کی بے قراری ہونٹوں پر آگئی . وہ ساکت سی ہوگئی " نہیں باجی آپکو چھوڑ کر کیوں جاؤنگی ؟ آپ سے رابطہ رہے گا ناں ہمیشہ ، پیسے تو آپ کے اور بھائی جان کے اکاؤنٹ میں ہی بھیجونگی آپ بچوں کو بھیج دیجئے گا" اسکے لہجے کا روکھا پن اچانک ہی کہیں غائب ہوگیا تھا میرے دل کی بے چینی کو چین آیا ، جانے کیوں ذلت کا ایک عجیب سا احساس مجھے اسکے رویے سے ہونے لگتا تھا ... میں سب کچھ برداشت کر سکتی تھی مگر یہ رویہ نہیں اور وہ بھی سعدیہ کا جو ہمیشہ میری انتہائی عزت اور قدر کیا کرتی تھی . حالات کے ان ہی پیچ و خم کے ساتھ زندگی کے معمولات طے ہوتے رہے اور سعدیہ کے بیشتر کام میں ہی نمٹاتی رہی یوں عید کا دن آگیا آج وہ آئ مجھ سے کھنچے کھچے انداز میں عید ملی میں اسے سب کام بتا کر ملنے ملانے چلی گئی واپس آئی تو زیادہ تر کام ادھورے پڑے تھے "یااللہ" میں چکرا کر رہ گئی اور پہلی بار انتہائی غضبناک ہوکر اسکو فون کر بیٹھی " تمہارا دماغ اب بالکل ہی اوٹ ہوگیا ہے سعدیہ؟ تم سارے کام ادھورے چھوڑ کر چلی گئی؟؟ " میرے تایا کا انتقال ہوگیا ہے میں وہاں ہوں" اسی روکھے پن سے جواب آیا جو آجکل اسکا خاصہ تھا میرے تن بدن میں آگ لگ گئی میں نے دھڑ سے موبائل ایک طرف پھینکا " کل آجاۓ ذرا اسے فارغ کرتی ہوں خواہ مخواہ پاگل بنا رکھا ہے مجھے ! " شیطان نے اپنے وعدے کے مطابق میرے خیالات میں ایک چنگاری رکھ دی اور میرا دل و دماغ دھڑا دھڑ جلنے لگا .
مگر اگلے دن سعدیہ کی اتری ہوئی صورت دیکھ کر میں غصّے کے باوجود پھر کچھ نہ کہہ سکی . مگر اب میرے اندر یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اصل بات جان کر رہوں گی "سعدیہ ! آج تم مجھے بتا کر جاؤ گی کہ آخر تمہیں کیا ہوا ہے؟ میری کونسی بات تمہیں اتنا تکلیف دے گئی ہے وہ پہلے تو رونے لگی پھر کہہ اٹھی " آپ نے مجھے ایسا سمجھا کہ میں رشتے تلاش کرنے نکلی ہوں ؟ میں تو معمولی سی کام کرنے والی ہوں آپ نے مجھے اتنا ذلیل سمجھا؟ میں آپ سے یہ امید نہیں رکھتی تھی ثمر باجی " اسکے آنسو بہتے جارہے تھے اور میں نے اپنا سر تھام لیا " سعدیہ اتنی پرانی بات ؟ ہم نے تو ایک خیال کے تحت ایسا کہا تھا پھر تم نے انکار کیا تو دوبارہ کہاں نکلی یہ بات؟ اور تمہاری ذلت کہاں سے ثابت ہوئی؟" اس نے کچھ نہیں کہا مگر اگلے دن وہ نہیں آئی میں نے بہت سے فون کیے تو جواب میں شام کو اسکا میسج آیا " ثمر باجی ہمارا ساتھ یہیں تک تھا اپ کسی اور کو رکھ لیں اپنے گھر " مجھے پتہ تھا کہ اس نے میسج کسی سے کروایا ہوگا وہ ابھی اتنا نہیں جانتی تھی کہ میسج لکھنے اور پڑھنے لگے .. میرے دل کی کیفیت انتہائی عجیب تھی "اگر سعدیہ نے مجھے چھوڑ دیا تو میرا کیا ہوگا؟اور خود اسکا کیا ہوگا ؟ " میں نے گھبراہٹ میں امی کو فون ملایا امی نے اور ہی عجیب باتیں شروع کر دیں "وجہ بھی سب پوچھیں گے جلنے والے اپنے دلوں کو ٹھنڈا کریں گے وہ سب کو وجہ بھی بتاۓ گی ہماری عزت تو دو کوڑی کی ہوگئی تھی .ہاے ثمر اپنے بھائی کے لیے ایسا انتخاب کیا تم نے اور پھر اس نے بھی ٹھوکر ماردی ! " " امی آپ کو اس وقت سعدیہ کی ذہنی حالت کا اندازہ ہے؟" میں حیران تھی ( میری امی اتنی خودغرض ہیں؟) میرا دل پہلے ہی بے قرار تھا اور زیادہ بے قرار ہوگیا
"کہاں جاؤں؟"
الا بذکر الله تطمئن القلوب
جانے کس نے سرگوشی کی تھی ؟ اور میں سجدے میں گر گئی.
آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میں سجدے میں دنیا اور آخرت کی بھلائی نہیں مانگ رہی تھی ... میں سجدے میں سعدیہ کی محبت واپس مانگ رہی تھی ! (سعدیہ سے معافی مانگ لو ) رو رو کر بے حال جب میں نے سجدے سے سر اٹھایا تو دل میں آنے والا پہلا خیال یہی تھا . "سعدیہ کے گھر جانا ہے مجھے" میں جانماز طے کرتے ہوۓ پکّا فیصلہ کر چکی تھی . مگر مجھے اسکے گھر جانے کی ضرورت نہیں پڑی ایک دن وہ مجھے راستے میں ہی مل گئی "سعدیہ میرے ساتھ چلو ذرا " میں نے قدرے سختی سے کہا اس نے کوئی جواب نہیں دیا خاموشی سے آگئی میرے ساتھ .. " بات اتنی سنجیدہ نہیں تھی جتنی تم نے بنا لی ہے ، ایسے مت کرو ہماری محبت میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرنے کی گنجائش تو ہے ناں؟ یا نہیں؟ " میں نے اسکا ہاتھ تھام کر بات شروع کی " ثمر باجی اب میں یہاں کام نہیں کروں گی یہ طے ہے باقی آپ جو مرضی کہہ لیں میں آپ کو جواب نہیں دونگی پلٹ کر " اسکا وہی روکھا انداز مگر مجھے اس بار غصّہ نہیں آیا " سعدیہ ! تم مجھے معاف نہیں کر سکتی ہو؟ میرے دل کے کسی گوشے میں بھی تمھیں تکلیف دینے کا خیال نہیں تھا ،... میرا بھائی مجھے بہت عزیز ہے مجھے اسکی خامیاں بھی خامیاں نہیں لگتی ، میں بھی اس سے اتنا ہی پیار کرتی ہوں جتنا تم اپنے بھائی سے کرتی ہو ، تمہارا بھائی بھی تو نکما ہے کوئی کام نہیں کرتا تمھارے پیسوں کا آسرا رکھتا ہے تو تمھیں پھر بھی اسکا اور اسکی بیوی کا خیال رہتا ہے ناں؟؟ اسی طرح مجھے بھی ایک پل کو بھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ میرا بھائی بظاھر عیب والا ہے اور تم کتنی بھی اسکی تعریفیں کرلو مگر ہو تو ایک عام انسان ہی ناں؟؟" میری آواز میں آنسوؤں کی نمی گھلی تھی " نہیں باجی ایسا نہیں ہے !" وہ تڑپ کر رہ گئی آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے آپکا بھائی ڈاکٹر یا انجنئیر ہوتا سننے بولنے والا ہوتا تو بھی میں شادی نہیں کرتی ، آپ نہیں جانتی ہیں کیا ؟ میں جس سے محبت کرتی ہوں بس اسکا خیال نہیں نکل سکا آج تک میرے دل سے " " اسے تو خیال نہیں آیا تمہارا کبھی ! " میرا لہجہ چبھتا ہوا تھا اس نے غور سے مجھے دیکھا " خیر مجھے بس تم سے معافی مانگنا ہے .. میرا مقصد تمہیں تکلیف دینا نہیں تھا مگر پھر بھی تمہیں تکلیف دے بیٹھی ہوں تو میں الله کے واسطے تم سے معافی مانگتی ہوں " میں نے ہاتھ جوڑ دئیے تو اس نے میرے ہاتھ پکڑ لیے " ایسے مت کریں باجی ! میں نے آپکو معاف کیا اور آپ بھی مجھے معاف کردیجیے گا اور بھول جایے گا کہ میں کبھی یہاں کام کرتی تھی " اسکا مطلب یہ ہے کہ تم مجھے بہلا رہی ہو اگر سچ مچ معاف کردیتی تو کام کرنے پر اعتراض نہیں کرتی ناں؟" " نہیں کام نہیں کروں گی اب آپکے پاس اسکے لیے آپ مجھے معاف کردیں !" اسکا یہ انداز نیا نہیں تھا وہ جس کے پاس سے بھی کام چھوڑتی ایسے ہی اچانک چھوڑتی اور پھر کبھی اسکے گھر نہیں جاتی ، ایسے کئی قصّے مجھے معلوم تھے مگر میں نے ہمیشہ چسکے لے کر ایسے قصّے سنے تھے . آج جب میرے ساتھ ایسا ہی ہورہا تھا تو دل ان تمام لوگوں کا درد بھی محسوس کر رہا تھا جو اس سے پہلے اس تکلیف سے گزرے ہونگے .. ( ایک سبق اور ملا تھا آج زندگی کا ) میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ سعدیہ میرے ساتھ بھی ایسا سلوک کرے گی جیسا اوروں کے ساتھ کرتی تھی " تم میرے تمام خاندان والوں کے گھر جاتی ہو سعدیہ ! تم نے سب کو بتایا بھی ہوگا کہ تم نے میرا کام چھوڑ دیا ہے اور وجہ بھی بتائی ہی ہوگی ؟؟" امی کی بات مجھے ایکدم ہی یاد آئ تھی " نہیں سب کو تو نہیں مگر نورین بھابھی اور امی کو بتائ ہے وہ بہت اصرار کر رہی تھیں " اس کی آنکھیں کسی بوجھ سے جھکی تھیں " نورین اور امی ؟یعنی میری ساس؟" میری آواز چیخ کی طرح برامد ہوئی تھی حلق سے " تم جانتی ہو ناں کہ وہ لوگ کیا ردعمل ظاہر کریں گے؟" " تو کیا ہوا آپ تو کہتی ہیں ناں کہ آپ نے کوئی غلط کام نہیں کیا مجھے رشتہ کا کہہ کر... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے یہ ، پھر آپ کیوں پریشان ہیں؟ " اس نے جانچتی نظروں سے مجھے دیکھا شرمندگی کا ہلکا سا احساس جو کچھ دیر پہلے جاگا تھا اب غائب ہوچکا تھا اسکے چہرے سے . " میں پریشان نہیں ہوں سعدیہ ! مگر تمھارے انکار کے بعد میری کیا پوزیشن بن رہی ہے اسکا اندازہ ہے تمھیں ؟ میں سب سے ٹکر لے سکتی تھی تمھارے اقرار کے بعد ، اب مجھے کس انداز میں لوگوں کو فیس کرنا ہے یہ تم سمجھ سکتی ہو ناں؟ تم سب کچھ جانتے ہوۓ بھی اتنا بڑا امتحان ڈال گئی ہو مجھ پر؟" مجھے حیرت کے جھٹکوں نے بے حال کردیا تھا سعدیہ پر میرا کونسا راز ، راز تھا؟ سب جانتے ہوۓ ، میری ہمدم و ساتھی ہوتے ہوۓ وہ اتنی بری طرح شکنجے میں جکڑ گئی مجھے؟ " یا الله میں کہا جاؤں؟" سعدیہ کی شرمندگی اسکے چہرے سے عیاں ہونے لگی ... " باجی ! مجھے خود نہیں پتہ کہ میں یہ سب کیسے کر گئی بس مجھ سے برداشت نہیں ہورہا تھا وہ سب ، اور میں نے پہلے سب کچھ نہیں بتایا تھا ان لوگوں کو، نورین بھابی نے بہت عجیب باتیں کی تھیں میرے متعلقَ .." وہ لمحے بھر کو رکی "عجیب بات؟؟" میں بے چینی سے کہہ اٹھی اسکا لمحے بھر کا توقف مجھ پر صدیوں کی طرح بھاری تھا " آپکو یاد ہے ناں آپکی امی کے آپریشن کے زمانے میں جب آپ امی کے پاس ہسپتال میں ہوتی تھیں تو میں آپکے گھر رکی تھی بچوں اور بھائی کی دیکھ بھال ، ناشتہ کھانا اور دوسرے کاموں کے لیے ؟ " اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا " بھول سکتی ہوں میں بھلا؟ تمھارے احسانات ہیں مجھ پر" میں سوکھے لبوں کے ساتھ بس اتنا ہی کہہ سکی .. اس وقت کوئی اپنا ہی ایسے کام آتا ہے جس طرح اس نے میرے گھر کا خیال رکھا اور اپنا گھر بار چھوڑ کر میرے گھر رہی تھی سب ہی حیرت میں پڑ گئے تھے
"خیر احسان تو اگر گنے جایئں تو آپ کے ہی زیادہ ہونگے مجھ پر " وہ تلخی سے مسکرائی " نورین بھابی نے ناقابل برداشت بات کی تھی اور پوچھا کہ "ثمر نے تمھارے کردار پر بات کی کیا؟ یا انکی کوئی چیز غائب ہوئی ہے؟" مجھ سے برداسشت نہ ہوسکا اتنا گھٹیا پن " میں حیرت سے ساکت ہوگئی ( اور پھر اپنا آپ بچانے کے لیے سعدیہ نے سچ بتا دیا ؟ اور نورین بھابی؟ اور امی؟ سب کو اتنی جستجو تھی ؟
(إياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تنافسوا ولا تحاسدوا
تم بچو بہت زیادہ گمان کرنے سے پس بے شک بعض گمان جھوٹ ہوتے ہیں اور نہیں تم ایک دوسرے کی باتیں چپکے چپکے سنا کرو اور نہیں تم ایک دوسرے کے عیب تلاش کیا کرو اور نہیں تم دنیا میں بہت دل لگاو اور نہیں تم ایک دوسرے سے حسد کرو )
کچھ باتیں پوشیدہ رہیں تو سب کا بھلا ہوتا ہے اپنے معاملات تو سنبھلتے نہیں ہم سے دوسروں کی کتنی فکر کرتے ہیں ہم ! ) غم و اندوہ نے میرے جسم کو سن کردیا اور میرے احساسات انتہائی عجیب ہونے لگے (نورین بھابی میری سگی بہنوں کی طرح محبت کرنے والی دکھ درد سننے، بانٹنے والی، انہوں نے ایسا کہا؟ اور سعدیہ نے کیا کیا؟؟؟ ) کتنی ہی دیر میں خاموشی سے بیٹھی ایک سمت کو گھورتی رہی "مجھے بھی دکھ ہے کہ میں نے انکو یہ سب بتایا مگر انہوں نے بہت عجیب انداز میں بات کی تھی " سعدیہ نے اپنی صفائی دینا چاہی تھی " تم نے اور کسی کو نہیں بتایا؟؟" میری آواز مجھے خود بھی سنائی نہیں دے رہی تھی " نہیں ، بس ... وہ روزینہ باجی کو ... میں بہت زیادہ تکلیف میں تھی ثمر باجی اس وقت آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا مجھے خود بھی افسوس ہے اس بات کا " "اور سب کے کہنے میں آکر سب کی باتوں کو مان کر تم نے میری بات کو اپنی تذلیل مان لیا؟ تم نے مجھے چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا؟ " میں نے جیسے اسکی بات سنی ہی نہیں میں تو گویا کڑیوں سے کڑیاں ملا رہی تھی اور خود پر اذیت ناک حیرتوں کے در کھول رہی تھی "نہیں بس شاید... یہ بات ہے کہ بہت زیادہ گھستے ہیں تو شاید نتیجہ یہی آتا ہے " روزینہ کا جملہ سعدیہ کے لبوں سے برآمد ہوا تو کرب انگیز مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر ٹہر گئی " اور یہ پتے کی بات روزینہ نے بتائی ہوگی تمہیں ؟" سعدیہ ایکدم چپ سی ہوگئی کچھ دیر ہم دونوں خاموش رہے ....
﴿إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً بے شک انسان پیدا کیا گیا ہے بے صبرا دل کا کمزور
إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً جب پہنچے اسے برائی وہ سخت گھبرانے والا ہوتا ہے )
وإذا ﻣﺳہ اﻟﺧﯾر ﻣﻧوﻋﺎ اور جب پہنچے اسے بھلائی تو روکنے والا ہوتا ہے )
(کوئی ایک بات بھی تو جھوٹ نہیں ہے میرے رب کی... میں ، سعدیہ نورین بھابی ، روزینہ باجی ہم سب اپنے اپنے مقام پر مکمل طور پر ناکام تھے بالکل ناکام اپنے ذاتی فائدے کا سوچنے والے اپنی خوہشات کے پیچھے بھاگنے والے ، دوسروں کی غلطیوں سے فائدہ اٹھانے والے ، رشتوں کو توڑنے والے اور رشتوں کو ٹوٹتا دیکھ کر خوش ہونے والے ! خود پر بھلائیوں کے در بند کرنے والے .. نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے خوشخبری دی ہے اپنی امت کو کہ روز محشر سخت گرمی میں صلہ رحمی کرنے والے عرش کے ساۓ میں جگہ پائیں گے ... ہم بھلا عرش کے ساۓ میں کہاں جگہ پا سکیں گے روز محشر ؟؟) آنسو پلکوں کا بند توڑ توڑ کر میرا گریبان بھگتے جا رہے تھے ( کل میں سعدیہ کی بے جگری اور بے مروتی کو اسکا ٹیلنٹ کہا کرتی تھی، لوگوں کو راستے میں کھڑے کھڑے بے نقط سنانے کی عادت کو اسکی صاف گوئی کہا کرتی تھی ، اسکا سب کے گھروں کے معاملات مجھ سے شئیر کرنے کو آپس کی انڈر سٹینڈنگ کہا کرتی تھی اسکے کہیں کام چھوڑ دینے کے چسکے لیا کرتی تھی اور آج میری کوتاہی اور غلطی کا فائدہ میرے اپنے اٹھا رہے ہیں ... اور سعدیہ سب کو بھرپور موقع دے رہی ہے مجھ پر ہنسنے کا... سعدیہ ! جس پر میں اپنے آپ سے بڑھ کر بھروسہ اور گمان رکھتی تھی ! ) " تو تم مجھ سے اپنے تمام تر رشتے توڑ دینا چاہتی ہو؟" میں نے آنسو صاف کرتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا "نہیں باجی ! ہم رابطے میں رہیں گے ، اور پھر بچوں سے ملنے تو میں آتی رہوں گی " اسکا سر جھکا ہوا تھا " تمہیں یہ محسوس ہوا ہے کہ تم کو سب نے میرے خلاف کیا ہے ؟؟" میں نے اسکی شرمندگی سے کچھ اخذ کرنا چاہا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا ...
"اچھا باجی ! میں چلتی ہوں" وہ اچانک اٹھ کھڑی ہوئی " میں اتنا جانتی ہوں کہ میں نے آپکو بہت تکلیف دی ہے اور میرے بار بار سامنے آنے پر یہ تکلیف بڑھے گی ، کم نہیں ہوگی " وہ پلٹ گئی " مگر میں اب بھی تم سے اپنا رشتہ توڑنا نہیں چاہتی میں رشتہ توڑنے والوں میں شامل نہیں ہونا چاہتی سعدیہ !" جانے کیوں انتہائی متنفر ہونے کے باوجود میں نے اسے پکارا ، میرے دل اور دماغ دو الگ الگ فیصلے کر رہے تھے !
مجھے تو ایسا ہی لگا تھا کہ میں نے اسے پکارا تھا مگر وہ جانے کیوں رکی ہی نہیں ... اسکے جانے کے بعد میں دیر تک سوچتی رہی "میں نے پکارا بھی تھا یا نہیں؟؟" ہر بار جواب اپنی مرضی کا تو نہیں ملتا ناں؟؟ مجھے بھی نہیں ملا . میں نے اس بار رمضان میں ان تمام درس کی محفلوں میں شرکت کی تھی جس میں صلہ رحمی کے حوالے سے بات ہوئی تھی اور میں نے سوچا تھا کہ میں کبھی بھی رشتہ توڑنے والوں میں نہیں ہونگی (انا اور خودداری پر بھرپور ضرب لگنے کے بعد یہ بہت مشکل بھی لگ رہا تھا) مگر میری تمام اچھائی کی کوشش برائی میں کیوں بدل جارہی ہیں آجکل ؟ آخر ایسی کیا غلطی ہوگئی ہے مجھ سے کہ الله مجھے کامیاب ہونے ہی نہیں دے رہا میرے ارادوں میں؟ سوچ سوچ کر میرا دماغ شل ہوگیا مگر کوئی راہ نظر نہیں آرہی تھی
دو دن اسی کشمکش میں گزر گئے کہ اب اس سے بات کروں یا نہ کروں! دو دن بعد امی ایک لڑکی کے ساتھ میرے گھر آئیں میں نے اسے نہیں پہچانا میں تو اسکی گود میں معصوم سی پیاری گڑیا سی بچی کو دیکھ رہی تھی جو بمشکل دو ماہ کی ہوگی ٹھنڈا یخ پانی پینے کے بعد امی نے مجھ سے کہا "پہچانو اسے " میں نے بغور اسے دیکھا " بختاور!" میرے منہ سے بے اختیار نکلا وہ لڑکی بے ساختہ مسکرا اٹھی "پہچان لیا باجی نے " میں نے اٹھ کر اسے گلے لگالیا "تم کب آئیں پنجاب سے؟ شادی کے بعد تو غائب ہی ہوگئیں تھی کتنے بچے ہیں؟ کتنے دنوں کے لیے آئی ہو؟" میرے سوالات گویا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے " کام ڈھونڈ رہی ہے یہ آجکل یہاں پر اور فلحال واپسی کا ارادہ نہیں ہے" امی نے مجھے بتایا تو میں نے سر ہلا یا "اچھا اچھا... مل جائے گا کام یہاں کونسی کمی ہے کام کی " امی اور بختاور نے ایک دوسرے کو دیکھا اور میرے دل پر ایک اور چوٹ پڑی ( تو امی اسکو میرے پاس کسی مقصد سے لائی ہیں ...انسانوں کو بھی ہم چیزوں کی طرح ایک کے بعد ایک بدل دینے میں کتنی جلدی دکھاتے ہیں)
بختاور کی امی ہمارے گھر اس وقت کام کیا کرتی تھی جب میں آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی بختاور بہت چھوٹی سی تھی شاید آٹھ نو سال کی ، میری اس سے بہت دوستی ہوگئی تھی اپنی کتابیں اسٹیشنری اور دوسری چیزیں میں اس سے شئیر کرتی رہتی مگر اسکو سب سے زیادہ شوق میک اپ اور کپڑوں کا تھا میں اسے ہر تارہ کی چیز لا لا کر دیتی رہتی اور لوگ حسب عادت مجھے ٹوکا کرتے "اب ماسی تاسی کی بیٹیوں سے بھی تم دوستی کرو گی؟ اپنا مطلب نکلتے ہی ایسا چونا لگا کر غائب ہوگی کہ ہاتھ ملتی رہ جاؤ گی " ایک تو یہ ہمارا طبقات کا کمپلیکس ہمیں مار گیا ہے میری اس وقت بھی یہی سوچ ہوا کرتی تھی کہ تمام انسان ایک سے ہوتے ہیں تھوڑے اچھے اور تھوڑے برے ہم خواہ مخواہ کسی کو اچھائی کی اور کسی کو برائی کی علامت بنا لیتے ہیں کبھی طبقہ اور کبھی ہماری دل کی مرضی ! ہمیں بس یہ لگتا ہے کہ فلاں شخص میں صرف خوبیاں ہی ہیں اور فلاں شخص میں صرف خامیاں ہی ہیں.. اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ ہماری نظر میں اچھے شخص کی برائی اور ہماری نظر میں برے شخص کی اچھائی ہم سننا ہی نہیں چاہتے ! شخصیت پرستی سے بڑی بیماری اور کیا ہوگی ، جو آنکھوں پر پڑا غفلت کا پردہ سرکنے ہی نہیں دیتی. بہرحال پھر تیرہ سال کی عمر میں بختاور کی امی نے اسکی شادی کردی اسکی عمر سے دوگنے شخص کے ساتھ ! ہماری امی نے اسکی امی کو بہت سمجھایا کہ ایسا نہ کرو مگر اسکو بختاور پر شک تھا ، کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے اور شادی وہیں کرنا چاہتی ہے ! "پسند کی شادی میں کیا برائی ہے؟ اچھا ہے جہاں وہ شوق سے نکاح کرے گی وہاں خوش بھی رہے گی " امی نے کہا مگر بختاور کی امی کے پاس بھی کافی سارے جواب تھے "ہم گردن کٹوا دیتے ہیں مگر پسند کی شادی نہیں کرتے " اس جہالت پر ہنسنا ہے یا رونا ہے اس باریے میں میری سمجھ اس وقت بہت کم تھی لہٰذا میں چپ ہی رہی تھی. پھر سننے میں آیا کہ بختاور اپنے نکاح کو تسلیم نہ کرتے ہوۓ کسی کے ساتھ دوسرے شہر بھاگ گئی ہے... میری عمر اس وقت ایسی نہیں تھی کہ بڑے اپنے تمام معاملات مجھ سے بھی شئیر کرتے لہٰذا بہت سی باتیں مجھے پتہ نہیں چل سکیں سواۓ اس کے کہ دو ماہ بعد بختاور کو ایک تھانے سے برآمد کیا گیا ہے ! پھر وہ آج پچیس برس بعد میرے سامنے تھی ! پہلے سے کہیں زیادہ سمجھدار اور اچھا مزاج رکھنے والی ! غم و اندوہ اور تجربات کی ہزاروں کہانیاں اسکے چہرے کی ہر لکیر میں رقم تھیں.
" تمھارے کتنے بچے ہیں بختاور ؟" میں نے اسکے ہاتھ سے معصوم سی بچی کو اپنی گود میں لیا " میرے تو چار بیٹے ہیں باجی چاروں بڑے ہیں سب سے چھوٹا بھی ٩ سال کا ہے یہ تو تاجور کی بیٹی ہے اسکو بڑی بیماریاں لگی ہیں اب کہاں بچے پلتے ہیں اس سے ، مجھے اب شہر میں ہی رہنا ہے اپنا گھر بنانا ہے بچوں کے رہنے کا ٹھکانہ کرنا ہے ،میاں میرا اب بیمار رہتا ہے اسے گاؤں میں ہی چھوڑ آئ ہوں ابھی کچھ آسرا ہوجاۓ تو یہیں بلا لیں گے ابھی تو ہم خود بہنوں بھائیوں کے در پر پڑے ہیں."
"انشااللہ " میں نے دھیرے سے کہا " تم آنا پھر بختاور ! میں دیکھوں گی تمھارے لائق کوئی کام " میں نہ چاہتے ہوۓ بھی اس سے کہہ گئی تھی" زندگی اور خوشی کی ایک لہر میں نے اسکی چہروں کی لہروں میں دیکھی تھی ! (یا الله ! فیصلے تو سب تیرے ہی ہیں ناں؟ ہم تو بس عمل کرنے والے ہیں ) دل میں بے قراری اور قرار کی ملی جلی کیفیت کو میں خود بھی نہیں سمجھ پارہی تھی !
پھر تین دن اور گزر گئے دل و دماغ کی کشمکش کبھی ایک دم بڑھ جاتی اور کبھی ایک دم کم ہوجاتی سعدیہ کو فون کرنے کا پختہ ارادہ کرتی اور اسکا نمبر ملا کر کاٹ دیتی ! اسی دوران مجھے ایک دن راستے میں سعدیہ کی مدرسے والی باجی ملیں " کہاں غائب ہے سعدیہ؟ ہفتہ بھر ہوگیا ہے اسکا کوئی پتہ نہیں اچھا خاصا چل نکلی تھی اب تو چھوڑنا نہیں چاہیے اسکو قران مجید " " جی پوچھتی ہوں آج ہی فون کر کے " میں نے جواب دیا اور گھر آکر اسے فون ملا دیا اور انتہائی استقامت کے ساتھ فون پکڑ کر بیٹھی رہی..... "السلام علیکم " چوتھی گھنٹی پر اس نے فون اٹھا لیا لہجے میں اپنائیت لگی مجھے ، تھوڑی حیرت بھی ہوئی میں سمجھی تھی کہ وہ فون نہیں اٹھاۓ گی "وعلیکم السلام سعدیہ باجی ! کیسی ہو جناب؟ " میں نے جھومتے دل اور بشاش لہجے کے ساتھ جواب دیا (لگتا ہے دماغ اس ایک ہفتے میں کچھ ٹھکانے پر آگیا ہے ) " زندہ ہوں " تھوڑی سی پژمردگی اسکی آواز میں در آئ " "یہ بتاؤ تم نے مدرسے جانا کیوں چھوڑا ہے؟" میں نے مخصوص سختی اور اپنائیت کے ملے جلے انداز میں پوچھا چند لمحے خاموشی طاری ہوگئی "بتاؤ کیا پوچھ رہی ہوں میں؟" " نہیں باجی چھوڑا تو نہیں ہے مگر ابھی ہمّت نہیں ہورہی ہے اسلئے نہیں جارہی ہوں مجھے آدھے سر کا درد رہنے لگا ہے بہت زیادہ پیچھے گردن میں بھی تکلیف ہے کام بھی نہیں ہوتا اب مجھ سے، سر نہیں جھکا پاتی ہوں " میرے دل میں درد کی عجیب سی لہر اٹھی تھی " اتنے زیادہ منفی خیالات کے ساتھ یہی حشر ہوتا ہے سعدیہ ! اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے تم کیوں اپنے دل کو اتنی تکلیفیں دیتی ہو ؟" " آپ سے آج بات ہوگئی ہے ناں باجی ! آج کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں " پتہ نہیں اس نے دل سے اقرار کیا تھا یا مجھے ٹالا تھا ! " سعدیہ ! تمہیں لبنیٰ باجی بہت پوچھ رہی تھیں تم مدرسے جاکر انکو بتا دو ورنہ تمہارا نام کاٹ دیا جاۓ گا تم وہاں جانا مت چھوڑنا " "جی انشااللہ" اس نے کہا " کل آؤ گی میرے پاس ؟" میں نے بڑی آس سے پوچھا تو وہ کہنے لگی "پتہ نہیں کیوں فون پر بات کر رہی ہوں تو بہت اچھا لگ رہا ہے مگر سامنے جانے کا سوچتی ہوں تو کچھ عجیب سا لگتا ہے .." ایک لمحہ توقف کے بعد اسنے کہا " اچھا ٹھیک ہے آجاؤں گی" میرے دل میں جیسے خوشی کے مارے پھول کھلنے لگے تھے
مگر اگلا دن اپنے ساتھ بہت سارے عجائبات لے کر آیا ..... سعدیہ ابھی آکر بیٹھی تھی اور مدرسے کے بارے میں کچھ باتیں بتانے لگی تھی اور میں نے اسکے چہرے پر پہلے والی اپنائیت دیکھ کر یہ سوچا ہی تھا کہ شاید الله نے مجھے سعدیہ واپس لوٹا دی ہے ! کہ دروازے پر گھنٹی بجی ، میں نے چونک کر گھڑی کی طرف دیکھا ( بختاور !) سعدیہ بختاور کو غائبانہ بہت اچھی طرح جانتی تھی یہ تو ممکن نہیں تھا کہ میں جھوٹ سچ کرتی ! ( یااللہ ! میں کہاں پر غلط ہوں؟ یا تو ہی کوئی فیصلہ فرما دے اب میں بہت بے بس ہوں بہت زیادہ) اس دعا کے بعد میں نے اپنے دل میں اطمنان اترتا محسوس کیا تھا اور سعدیہ اپنے مخصوص انداز میں دروازہ کھولنے بڑھ چکی تھی.


چند لمحوں بعد بختاور اور سعدیہ دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئیں .. میں ایک گہری سانس لے کر رہ گئی "السلام و علیکم " بختاور نے مسکرا کر مجھے سلام کیا اور آرام سے نیچے قالین پر بیٹھ گئی میں اس سارے عرصے میں سعدیہ کے تاثرات دیکھتی رہی بظاھر کوئی فرق نظر تو نہیں آیا تھا "وعلیکم السلام . کسی ہو بختاور؟ سعدیہ سے ملیں؟ یہ ہمارے گھر کے فرد کی طرح ہے" میں نے مسکرا کر سعدیہ کا تعارف انتہائی اپنائیت سے کروایا "جی ملی ہوں " مخصوص مسکراہٹ اسکے چہرے کا احاطہ کے ہوۓ تھی سعدیہ نے بھی خوش اخلاقی سے حال احوال دریافت کیا
"تم دونوں چاۓ پیو گی ناں؟ میں بنا کر لاتی ہوں " میں کچھ دیر کے لیے ان دونوں کو باتیں کرنے کا موقع دینے کا سوچ کر اٹھ گئی واپس آئی تو دونوں سکوں سے دو سکھیوں کی طرح خوش گپیوں میں مصروف تھیں " میں اسکو کہہ رہی ہوں باجی کہ ادھر ادھر خوار ہونے سے بہتر ہے آپ کے گھر کام کر لے " سعدیہ کی بات پر میں نے تڑپ کر سعدیہ کو دیکھا (اب بھی یہ بھاگ رہی ہے مجھ سے) "اس لیے کہہ رہی ہوں کہ اسکو ضرورت بھی ہے ناں آجکل ہر کوئی ہر کسی کو نہیں رکھتا جب تک پرانی جان پہچان نہ ہو یا بھروسہ نہ ہو میرے تو گھر ابھی لگے ہوۓ ہیں آپکا بھی پکڑوں گی تو وقت کی کمی ہوگی اسکو ضرورت بھی ہے اور ہم تینوں کی سہولت بھی"
اسکے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا جس سے میں کچھ اخذ کر سکتی بس اتنا کہ وہ ابھی میرے پاس کام کرنے کے لیے خود کو تیّار نہیں پاتی ورنہ یہ سب باتیں کب سوچتی وہ؟ "تم نہیں کرنا چاہتیں ؟ تو ایسے ہی سہی تمہارا دل صاف ہو ہی نہیں سکتا اب شاید میں کتنی بھی کوشش کر لوں کام کا کوئی مسلہ ہے ہی نہیں جو چاہے کر لے بختاور تم کپڑے استری کرلو پہلے پھر سب کام سمجھا دوں گی " " جی باجی وہ تو میں کر دوں گی مگر یہ سعدیہ باجی کی روزی ہے میں کیسے اس پر لات مار دوں؟ آپ کا کام یہی کریں گی میں آتی جاتی رہوں گی " بختاور کپڑوں کا ہینگر اتارنے کے لیے کھڑی ہوئی " " روزی ووزی الله کے ہاتھ میں ہے بختاور تو کام شروع کر میرا نصیب تو نہیں لے سکتی ار تیرا میں نہیں لے سکتی " سعدیہ کہتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئی " اچھا ثمر باجی چلتی ہوں کہا سنا معاف " اس نے اپنا عبایا پہنا اور چل پر آج میں نے اسے آواز نہیں دی وہ خود ہی پلٹی "ہم بختاور ایک بات اور" " جی؟" میں خاموشی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی " باجی کے باقی گھر بھی تم سنبھال لو روزینہ اور نورین باجی کے گھر !" "سعدیہ تمہیں میرا کام نہیں کرنا ہے ناں؟ مت کرو مگر اسکو خواہ مخواہ مت پھنساؤ " میں ایک دم سے چلا اٹھی " ہان سعدیہ باجی ان سب کا بہت عجیب مزاج ہے میں سب سے جواب سوال نہیں کر سکتی اور پھر نورین باجی کے کام بھی بہت ہوتے ہیں میں نہیں کر سکتی ، منع بھی مجھ سے نہیں کیا جاتا " بختاور نے تقریباً ہاتھ جوڑ دیے " ارے کچھ نہیں ہوتا بختاور ! دھیرے دھیرے سب سیکھ جاتے ہیں منع بھی کرنا آجاۓ گا اور اپنا حق لینا بھی آجاۓ گا !" سعدیہ کی بات پر میرے اندر برچھیاں چل رہی تھیں ( ہان جیسے تمہیں آگیا ) زہریلے انداز میں سوچتے ہوۓ میرا ذھن کسی بھی اچھی اور مثبت سوچ سے خالی ہورہا تھا کیوں ثمر باجی ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں ؟ سب ہی سیکھ جاتے ہیں یہ بھی سیکھ جاۓ گی میری طرح " وہ میری طرف مری اور میرے منہ سے بے اختیار ہی تین لفظ نکلے " الله نہ کرے" وہ جیسے چوٹ کھا کر پلٹی " کیا مطلب ؟ الله نہ کرے؟ میں بہت بدتمیز ہوں ؟ کتنی بار آپ سے بد تمیزی کی میں نے؟ یہ بات میرے دل پر لگی ہے جاکر " " تم نے بد تمیزی کی یا نہیں یہ بحث بعد میں کر لینا مگر ایک بات طے ہے بختاور اور کہیں کام کرے یا نہ کرے اسکی مرضی ہے تم اسے مجبور نہیں کرو گی ، اور میری باتوں کا برا ماننا ہے اس بات پر تو اب تم نے گویا قسم لے رکھی ہے تو برا ماننا ہی ہے تو مانو پھر میں کہاں تک روک سکوں گی؟؟" میں نے بھی شاید پہلی بار اتنے اٹل لہجے میں اس سے بات کی تھی وہ ایک جھٹکے سے مڑی اور واپس پلٹ گئی . بعد میں مجھے اپنی بات اور لہجے کی تلخی کا اندزہ ہوا تھا مگر اب سعدیہ کو بلانے یا بات کرنے کی کوئی طلب نہیں پاتی تھی میں اپنے دل میں (بہت زیادہ ڈی گریڈ کردیا ہے اس نے مجھے اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں بنتی)
جیسے جیسے وقت گزرتا رہا میرے دل میں اسکی یاد بڑھتی چلی گئی جانے کیوں؟ بس وہ یاد آئی ہر لمحے ہر چیز میں سے اسکے وجود کی خوشبو محسوس کر کے مجھے اچھا لگتا آج بختاور کو میرے گھر کام کرتے سال ہونے والا ہے رمضان شروع ہونے والے ہیں کوئی کام ایسا نہیں جس میں سعدیہ کی یاد نہ ہو کبھی آنسو پلکوں پر ٹہر جاتے ہیں کبھی دل کی حالت عجیب ہونے لگتی ہے بختاور نے کبھی نہیں پوچھا سعدیہ نے کام کیوں چھوڑا میں نے بھی نہیں بتایا مگر اسکا ذکر ہمیشہ رہا اچھے لفظوں میں. بختاور میں غیبت کی عادت نہیں تھی کسی کی برائیاں کرنا اسکا کام تھا ہی نہیں اب تو اور بھی زیادہ محتاط ہوگئی تھی مگر کبھی کبھی مجھے سعدیہ کے لیے بہت اداس دیکھتی تو کہہ اٹھتی "آپ سعدیہ باجی سے مل آئیں جاکر ایک بار " میں مسکرا کر رہ جاتی اور دل میں سوچتی ( ہاں ایک بار تو ضرور ہی جاؤں گی بھلا کیا کرے گی وہ ؟ اپنے گھر آنے والوں کی عزت کرنا اسکا شیوہ گھر سے تو نہیں نکالے گی ، مگر مجھ سے وہ اتنی متنفر ہوچکی تھی کہ شاید مجھے دیکھ کر گھر سے چلی جاۓ ) دل کا سناٹا بڑھ جاتا اس خیال کے ساتھ . میں نے کبھی شعوری کوشش نہیں کی تھی کہ اس کا برا سوچوں مگر صرف میں اکیلے رشتے نبھا نہیں پارہی تھی میں ایک عام سی انسان تھی جو کہ بہت خاص بننے کی کوشش کرتی رہتی تھی ! مگر اکثر ناکام رہتی .
ایسے ہی اس دن رمضان کی چاند رات متوقع تھی جب بختاور مجھے سعدیہ سے ملنے کا مشورہ دے رہی تھی میں نے اس سے عجیب سوال کردیا " تم اپنے نکاح کے بعد کہاں چلی گئی تھی بختاور؟" وہ چند لمحے خاموش ہوگئی " بس جی شیطان ہے ناں انسان کے ساتھ ہر لمحے وہ لے گیا تھا ، میں کسی کی باتوں میں آگئی تھی مگر الله سے بہت معافی مانگی ہے میں نے وہ غفور الرحیم ہے مجھے ضرور معاف کرے گا ، مجھے میرے سسرال والوں نے بہت عزت دی ہے باجی کبھی بھول کر بھی میرے میان نے مجھے طنز نہیں کیا کہ میں بھاگ کر چلی گئی تھی ، ابھی بھی اسکی بیماری کی وجہ سے میرے حالات خراب ہوۓ ہیں تو میں ہزاروں دعائیں مانگتی تھی کہ مجھے بس آپکے پاس کام مل جاۓ میرا اور کوئی ..." "بس بختاور ! " میں ایک دم چیخ پڑی کہیں وہ آسرا کا لفظ نہ کہ دے میں خوف زدہ ہوگئی "آسرا بس الله کا اور کسی کا نہیں کبھی بھول کر بھی کسی سے مت مانگنا تم نے اس سے مانگا ناں؟ تمہاری ضرورت میری الفت سے بڑی تھی الفت ضرورت نہیں ہوتی بس دل لگا رہتا ہے اس میں ! " میری آنکھیں نم ہوگئیں دل الله رب جلیل کی بارگاہ میں جھکا جارہا تھا سجدے کی طلب بڑھنے لگی اور اس بار صرف اس رب سے اسکو مانگنے کے خیال سے میں اٹھ کھڑی ہوئی
_______________________________________________________
میں نے اس ایک سال میں بہت کچھ دیکھا اور سوچا تھا بختاور کی ضرورت کا نہ مجھے پتہ تھا نہ سعدیہ کو مگر الله پاک کو ہمارے ذریعے اور سبب سے اسکو ٹھکانہ نصیب کروانا تھا سو اس عظیم ذات نے جو چاہا کروا دیا ، سعدیہ نے میرا بہت لحاظ کیا تھا اور شاید آئندہ بھی کرتی رہتی اور اس لحاظ و مروت میں بختاور اپنی جگہ نہیں بنا سکتی تھی کبھی بھی .. میں وقتی طور پر جتنی بھی بد دل ہوتی ہوں اور کچھ غلط انداز بھی اختیار کر لیا کرتی ہوں مگر میرے اندر انتہا کی مروت اور خلوص بھی تھا ٹوٹی پھوٹی ہی سہی الله کی رضا کے لیے بھی کوشاں رہتی تھی نیت بھی صاف کرنے کی کوشش کرتی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میری ذات پر کیا گیا کوئی حملہ کبھی مجھے کسی سے تعلق توڑنے پر مجبور نہیں کرتا تھا میں آنا پرست نہیں تھی ! یہ سب صفات بختاور کے لیے بہت سودمند ثابت ہوسکتی تھیں شاید اسلئے الله نے اسے میرے گھر کا راستہ دکھانے سے پہلے اسکی جگہ میرے گھر میں بنائی تھی؟؟ 
رمضان کا چاند نکل آیا تھا سب ہر طرف شور شرابہ تھا سعدیہ کے لیے میرے دل میں جو بد گمانی تھی آج وہ بھی نکل گئی میں مغرب کی نماز کے بعد دعا مانگ رہی تھی آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر میرے دوپٹے پر گر رہے تھے " یااللہ! میں تیرے فیصلے پر راضی برضا ہوئی آج . میرا سعدیہ سے رشتہ دنیا میں بھی جوڑ دینا اور آخرت میں بھی تو جب سب رشتے داروں کو آپس میں ملاے گا تو میرا اور اسکا ساتھ رکھنا اور میرے ان تمام رشتےداروں کے دل مجھ سے اور میرا دل ان سے جوڑ دینا جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے خفا ہوجاتے ہیں یا الله ہم نہیں جانتے تیری مصلحتیں، ہم صدموں پر الحمدالله کہنے والے بن جایئں ایک دوسروں سے بد گمان ہوکر اختلاف میں نہ پڑے رہیں ہمارے دلوں کی تنگیوں کو تو نے جنت میں جانے سے پہلے دور کرنے کا وعدہ فرمایا ہے تو ہمارے دل اس دنیا میں بھی ایسے ہی پاکیزہ کردے ہمیں تیری ذات کے لیے ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا کرنا تجھ سے دوری کے لیے نہیں .. اس ماہ رمضان کی برکتیں ہم پر یوں نازل فرما کہ ٹوٹے ہوۓ دل جڑ جایئں بچھڑے آپس میں مل جایئں اور محبتیں اور مروتیں تیری خاطر ہوجائیں ... آمیں یا رب العالمین !" 

اتوار، 31 جنوری، 2016

.نالہ فریاد میرا ..
========= 
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے 
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے 
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیرگیا نالہء فریاد مرا
... heart emoticon 
"أَمَّنْ يُجيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء" 
' " کون ہے جو بے قرار کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ بے قرار اس کو آواز دیتا ہے اور کون ہے جو دور کرتا ہےاس کی مصیبت کو ؟"
تین دن سے ابو وینٹیلیٹر پر تھے . آج انھیں ہوش آیا تھا اور آج انکے پاس مجھے رکنا تھا جب میں ابو کی حالت کو دیکھنے MICU پہنچی تو ایک لمحے کو میری روح کانپ گئی سینکڑوں مشینوں کے درمیان جو چیز انکی زندگی کا احساس دلا رہی تھی وہ انکی آنکھیں تھیں میں انکے پاس گئی اور انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا انہوں نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور انکے ہونٹوں نے حرکت کرنے کی کوشش کی انکے منہ میں ایک موٹی سی ٹیوب لگی تھی جو انکی حلق سے ہوتی ہوئی سانس کی نالی سے گزر رہی تھی جسکی وجہ سے ہونٹ بند نہیں ہورہے تھے . میں سمجھ نہیں سکی انکی بات انہوں نے دوبارہ کوشش کی میں نے پوری توجہ مرکوز کر کے انھیں دیکھا اس اس لمحے میری سننے کی حس آنکھوں میں سمت آئی تھی اور میں نے سنا وہ ایک چار حرفی لفظ ادا کر رہے تھے "پانی " میں ایک دم چلا اٹھی "ابو ! پانی؟" انکے چہرے پر بات سمجھے جانے کے سبب ہلکا سا اطمنان ابھرا اور وہ دوبارہ مزید جوش سے اپنے ہونٹوں کو حرکت دینے لگے میں نے قریب کھڑی مونیٹرز کو چیک کرتی نرس سے بے اختیاری میں کہا "یہ پانی مانگ رہے ہیں " اس نے میری طرف دیکھا "اپنے دماغ کا علاج کروائیں " اس نے تو صرف مجھے دیکھا تھا یہ جملہ تو اسکی آنکھوں نے کہا جو میں نے اپنی تیز ہوتی حسیات کے باعث سن لیا تھا پھر اس نے پلٹ کر ابو کو دیکھا ہلکا سا ہمدردی اور ترس کا تاثر اسکے چہرے پر نظر آیا اور معدوم ہوگیا میں جانتی تھی پانی ابو کے لیے زہر ہے اسوقت . 
"آپ مل چکی ہیں پیشنٹ سے اب آپ جائیں پلیز " نرس نے میری طرف دیکھ کر نرمی بھرا سخت جملہ ادا کیا میں نے ایک نظر ابو کی طرف ڈالی انکی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ نکل تھا اور چہرے پر لگی ہوئی بے شمار ٹیوبز کے پیچھے غائب ہوگیا "یا یا الله !یا ارحم الرحمین !" میرے دل نے پوری طاقت سے پکارا تھا 
"آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اسے صاف کردیں " میں نرس سے کہہ کر الوداعی نظر ابو پر ڈال کر پلٹ آئی. دل و دماغ کی عجیب کیفیت تھی جو ناقابل بیان ہے ویٹنگ روم میں آکر اپنی تسبیح نکالی "کیا پڑھ رہی تھی میں؟" کچھ یاد نہ آیا مگر آنکھ سے آنسو اور تسبیح کے دانے گرنے لگے ابو ! میرے ابو ! میں نے آپکے مانگنے پر پانی نہیں دیا ! یا اللہ کب ناقدری کردی ہم نے اس نعمت کی ؟ کوئی بھی لمحہ کوئی بھی پل جب ہم نے ابو کی باتوں پر بیزاری ظاہر کی ہو میں اس پل کے لیے معافی مانگتی ہوں .. آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر تسبیح کے دانوں کے ساتھ لڑیاں بنا رہے تھے مجھے یاد آیا کہ ابو کھانے سے پہلے پانی پینے کے عادی تھے اگر کبھی ہم میں سے کوئی پانی رکھنا بھول جاتا تو بہت ناراض ہوتے . ہم سب بھی ابو کی ضرورت پوری کرنے کے لیے صرف انکی آنکھوں کے اشارے دیکھتے تہے .کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ابو پانی مانگیں گے اور میں نہیں دونگی . لیکن ..انسان کی بے بسی کی کوئی انتہا نہیں . اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی میرے شوہر کا فون تھا میں موبائل ہاتھ میں لے کر باہر آگئی "از ایوری تھنگ اوکے؟" انہوں نے پوچھا "جی سب ٹھیک ہے ڈاکٹرز بہت مطمئن ہیں پارٹلی وینٹ پر ہیں مگر .. مجھ سے ابو کی حالت دیکھی نہیں جارہی " میں ایک دم ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی انہوں نے مجھے کافی دیر سمجھایا جو مجھے سمجھ میں آیا یا نہیں مگر انکی پریشانی کا خیال کر کے میں نے انھیں سمجھ لینے کا یقین دلایا اور فون بند کر کے اپنی سیٹ پر واپس آگئی دوبارہ ہاتھ میں تسبیح اٹھائی دماغ میں صرف ابو کا بے بس انداز اور ماضی میں انکی پیار بھری ناراضگیاں تھیں جو کبھی کبھی ہمیں ناگوار بھی گزرتی تھیں "ابو کا جتنا بھی خیال رکھوں ذرا سی بات پر سب بھول جاتے ہیں وہ" ہم اکثر شکوہ بھی کرتے تھے مگر آج ابو کی وہ شفقت بھری ناراضگیاں یاد آرہی تھیں . ابو نماز کے اتنے پابند و شوقین تھے کہ ہڈی فریکچر ہونے کے باوجود نماز نہیں چھوڑی پھر آپریشن ہوا اس میں بھی انہوں نے وارڈ میں آتے ہی نماز کا حساب درست کیا " امید الله سے اچھی ہے " یہ انکا جملہ تھا جو وہ ہر کسی سے کہتے تھے پھر اچانک انھیں وومٹنگ ہوئی اور اسکی وجہ سے پانی پھیپڑوں میں چلا گیا اور انھیں آئی سی یو میں شفٹ کردیا گیا !
دوبارہ فون کی گھنٹی بجی تو میں نے تسبیح کے گرتے دانوں کو لمحے بھر کے لیے روکا دوسری طرف میری نند تھی "عنبر ! ہم نے دعا مکمل کرلی ہے تمہاری طرف سے کتنا شامل کریں؟" مجھے ایکدم ہی یاد آگیا کہ میں پہلے کیا پڑھ رہی تھی میں نے اپنے دماغ کو یکسو کیا اور اگلا دانہ گرانے سے پہلے اپنی زبان پر جاری ہونے والے الفاظ پر غور کیا "یا الله ! یا ارحم الرحمین ! میرے ابو کی پیاس بجھا دے " میری زبان پر جیسے اس دن یہ الفاظ چپک گئے تھے مجھے سری دعائیں بھول گئیں تھیں سواۓ اس دعا کے .میں گھر آگئی دن گزرا رات آئی اور رات کو بھی خواب میں ،میں یہی الفاظ ادا کرتی رہی .. 
اگلا دن نئی امیدوں کے ساتھ طلوع ہوا میرے شوہر ہسپتال گئے تھوڑی دیر بعد انکا فون آیا "مجھے تو کچھ بہتری نظر نہیں آرہی ابو ہوش میں نہیں ہیں" میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ انھیں حوصلہ دیا "انکی جاگ بہتر ہے اب آپکو اتفاقاً سوۓ ہوۓ ہی ملتے ہیں " انہوں نے ٹھنڈی سانس بھر کر فون بند کردیا صرف آدھے گھنٹے بعد دوبارہ موبائل بجا 
میں نے ڈرتے ڈرتے فون اٹھایا " ابو کی طبیعت ماشااللہ بہتر ہے انکو وینٹ سے مکمل طور پر ہٹا دیا ہے اور منہ میں لگی ٹیوب بھی نکال لیا ہے انہوں نے مجھ سے بات کی ہے دن تاریخ پوچھا ہے اور وقت کا بھی معلوم کیا ہے پھر نماز کا پوچھا ہے . " اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے میں نے دو تین بار آوازیں دیں دوسری طرف ہسپتال کے مخصوص شور شرابہ کی آوازیں آرہی تھیں مگر انکا کوئی جواب نہیں آرہا تھا . پھر مجھے عجیب سا احساس ہوا " آپ رو رہے ہیں ؟" کل مجھے حوصلہ دینے والا آج خود رو رہا تھا ابو کی تمام مشکل گھڑیوں کے وہ خود گواہ رہے ہیں ہمت و حوصلے کا سمبل. آج جانے کتنے دنوں پر ابو کی آواز سنی تھی محنت سوارت ہوجاۓ تو ایسے ہی رونا آجاتا ہے ! میں فورا ہی گھر میں خوشی کی اطلاع دے کر خود ہسپتال پہنچ گئی . گارڈ اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا مگر تھوڑی منتیں کرنے کے بعد اس نے جانے کی اجازت دے ہی دی میں اندر پہنچی تو ابو نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں انھیں نبیلایز کیا جارہا تھا اور انکے چہرے پر ماسک لگا ہوا تھا "
"آپ انہیں آواز دیں انہیں جگائیں ان سے باتیں کریں " کل والی نرس نرم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ مجھ سے مخاطب تھی "آج ہم انہیں شام تک پانی بھی دیں گے " اسکی مسکراہٹ گہری ہوگئی تو میں بھی مسکرا دی "انشااللہ" 
"اصل میں میم ! ہم ذمہ داریوں کی وجہ سے رویہ سخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ورنہ پیشنٹ کو ریکور ہواتے دیکھ کر ہمیں آپ سے زیادہ خوشی ہوتی ہے " وہ کہتے ہوۓ آگے چلی گئی میں جانتی تھی وہ سچ کہہ رہی ہے پھر میں نے ابو کو آواز دی ابو نے آنکھ کھولی مجھے دیکھ کر میری طرف ہاتھ بڑھایا انکا ہاتھ سرد تھا مگر بے چینی نہیں تھی انہوں نے کچھ کہا مگر ماسک کی وجہ سے واضح نہیں تھا مجھے صرف "امی " سمجھ میں آیا میں نے اندازے سے کہا "جی امی ٹھیک ہیں " انہوں نے مسکرا کر جیسے میری کم عقلی کا ماتم کیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی انگلی سے اس پر کچھ لکھنے لگے میں نے انکی انگلیوں کی حرکت پر دھیان دیا " الف .. میم .. یے .. دال ... امید " میری آنکھوں میں آنسو آگئے پھر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ میں سمجھی یا نہیں؟ میں نے سر اثبات میں ہلایا اب کے انکا جملہ مجھے سمجھ میں آگیا انہوں نے دوبارہ کہا " امید..Hope ...امید ! امید الله سے اچھی ہے" میرے بہادر ابو! میں نے انکا ہاتھ چوما اور روم سے باہر آگئی. ان چند دنوں میں ہمیں کیا کیا احساس ہوا ؟ میں شاید بیان نہیں کرسکوں پر بس اتنا ہی کہ آج ابو نے مجھ سے پانی کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا ! انکی پیاس بجھ گئی تھی کب اور کیسے؟ میں نے تو ڈھنگ سے تسبیح بھی نہیں پڑھی تھی کوئی ذکر بھی نہیں کیا تھا بس بے قرار دل کے ساتھ اپنی ہی زبان میں اپنی غرض مانگتی رہی اور اس نے کتنی آسانی سے عطا بھی کردی.حیات اور موت کا وقت مقرر ہے مگر اسکے درمیان کی تکالیف دل کی بیقراری کے ساتھ مانگی جانے والی دعائیں دور کردیتی ہیں .الله کا وعدہ سچا ہے !
"أَمَّنْ يُجيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء" 
' " کون ہے جو بے قرار کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ بے قرار ہوکر اس کو آواز دیتا ہے اور کون ہے جو دور کرتا ہےاس کی مصیبت کو ؟"
جب بھی دعا کو ہاتھ اٹھائیں الفاظ نہیں دل کا استمعال کریں رٹی رٹائی دعائیں مانگ کر کام نہیں نمٹائیں . یقینا مسنون دعائیں یاد کرنا چاہیے اور اسکی فضیلت اپنی جگہ ہے مگر ایک کیفیت کے ساتھ زبان کو آنسوؤں سے تر کر کے الله سے مخاطب ہوں پھر دیکھیں کہ کیسے وہ قبول کرے گا آپکی دعا ! انشااللہ 

سوہنی دھرتی           
اتنے ترے قرض !
ذرا چین ملے
جو ادا ہو 
میری بے توقیر سی 
ہستی سے 
بس یہی فرض 

---------------------------------------------
"
بیٹا ! اتنے سارے کپڑے .. اور سب ہی اتنے خوبصورت !"
بوا نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں " اسکی رلی تو بہت بڑی ہوگی ..."
"
اور بے حد خوبصورت بھی " عطیہ نے آنکھیں مٹکائیں تو بوا بھی ہنس پڑیں 
"
بڑی رلی کو بنانا بھی مشکل کام ہوتا ہے مگر خیر اب بنانی تو ہے .. ہاں ہاں بھئ ! اس میں تو شک نہیں اتنی خوبصورت رلی شاید ہی کبھی بنی ہو " بوا کی بات پر وہ جھوم جھوم گئی
"
میرا برسوں سے ارادہ تھا بوا ! کہ اس بار آپ میر پور جایئں گی تو مجھے رلی بنوانی ہی ہے ... مگر ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوجاتا ! اس بار اللہ نے ساتھ دے ہی دیا ہے بس آپ اگلے ماہ جب آئیں گی تو ساتھ ہی لائیے گا " 
اے بی ! ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمایا کرو ! کوشش کروں گی ضرور وعدہ نہیں ہے ... شاید اکتوبر تک آجاۓ ! "
"
٢٠٠٥ کے ہی اکتوبر میں آجاۓ تو مہربانی ہوگی " وہ قدرے چڑ کر بولی 
"
ہاں ہاں .. ضرور انشااللہ پہلے ہی آجاۓ گا " بوا مسکراتے ہوۓ اپنی چادر اوڑھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں ! 

عطیہ کی رمضان کے بعد شادی تھی اسکی امی ازلی سلیقہ مند ! اور یہ سلیقہ عطیہ میں بھی موجود تھا ، یہی وجہ تھی کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے بہت عمدہ نہ سہی مناسب سا جہیز تیّار کر ہی لیا تھا . کہ لڑکے والے بہت اچھے بھی تھے تب بھی جہیز سے انکار نہیں کیا تھا انہوں نے ! عطیہ کی ایک ہی دوست تھی ممتاز . بے حد محبت کرنے والی اور ملنسار وہ میر پور خاص کی رہنے والی تھی والد کی جاب کی وجہ سے کراچی میں مقیم تھی . اسکے گھر میں جاکر عطیہ کو ہمیشہ روایتی انداز کی زندگی ملتی ... سب سے زیادہ جس چیز نے عطیہ کو متاثر کیا وہ انکے گھر بچھی ہوئی مختلف کپڑوں سے بنی ہوئی خوبصورت رلیاں تھی . عطیہ نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا ہوا تھا کہ ایک خوبصورت سی رلی اپنے جہیز کا حصہ ضرور بناۓ گی . ممتاز سے اس نے ذکر کیا تو ممتاز نے اپنی بوا کا بتایا جو کہ اکثر میر پور آتی جاتی رہتی تھیں اور رلی لانے لے جانے کا کام بھی ان ہی کا تھا . تب سے عطیہ بوا کا پیچھا لیے ہوۓ تھی کبھی بوا جی بیمار کبھی انکا کوئی بچہ بیمار کبھی عطیہ کی کترنیں پوری نہیں ! آج دو سالوں بعد یہ نوبت آئی تھی کہ اس نے رلی کے لئے تمام جہاں سے کترنیں جمع کر کے بوا جی کے حوالے کر ہی دی تھی .

____________ *___________ * __________

رمضان کی شروعات اور اکتوبر کی پانچ تاریخ کو ہی رلی آگئی ! رنگ برنگی خوبصورت اور دلکش ! عطیہ تو دل و جان سے فدا تھی اس رلی پر سب کو دکھا کر فارغ ہوئی تو اچھی طرح تہہ لگا کر پیک کردیا ! 

ماہ رمضان اپنی رحمتیں لٹاتا رواں دواں تھا کہ اچانک ایک قیامت خیز گھڑی نے سب کچھ نگل لیا ! ... آٹھ کی صبح کو گویا قیامت کی خبریں گشت کر رہی تھیں .... ایک تباہ کُن زلزلے نے کئی جانیں لے لی تھیں اور بہت زیادہ مالی نُقصان بھی ہوا تمام چینل بالا کوٹ ،آزاد کشمیر مظفر آباد میں سب سے زیادہ تباہی دیکھا رہے تھے سب کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کیوں کہ سب قدرت کی مرضی کے آگے بے بس تہے! 

اذا زلزلت الارض زلزالها 
________________

سحری وہ پر سکون تھی سب روزہ دار تھے۔
سارے تھے ان میں پارسا کچھ داغ دار تھے

بعد از نماز فجر کچھ کاموں میں کھو گئے
باد نسیم خنک تھی سو باقی سو گئے

غافل تھے بے خبر تھے وہ بے نیاز تھے
لیکن قضا کے پاس پوشیدہ راز تھے

سانسوں کو تسلسل کی مہلت قلیل تھی
اس کا تھا کچھ ثبوت نا کوئی دلیل تھی

اب تم کو سناتا ھوں اک گھر کی کہانی
میں نے سنی ھے بات یہ اک ماں کی زبانی

کہتی ھے قضا لے گئی خاوند کو مرے دور
بچوں کے لیئے جینے کو ھو گئی مجبور

میں حوصلے کے ساتھ انھیں پال رھی تھی
تھا مجھ پہ کڑا وقت جو میں تال رھی تھی

کرتی شبانہ روز میں کپڑوں پہ کڑھائی
دو وقت کی روٹی اور بچوں کی پڑھائی

جانے قضا سے ھو گئی اس روز کوئی بھول
اس وقت میں قرآں کی تلاوت میں تھی مشغول

لرزی زمین ایک دم سے آیا زلزلا
یہ موت کی جانب کے سفر کا تھا مرحلہ

نکلی تھی گھر کے صحن میں دیکھوں ھوا ھے کیا
میرا مکان میرے ھی بچوں پہ آ گرا

چیخی تھی مری بچی دھاڑے تھے مرے لعل
ان کو بچا سکوں میری تھی کیا مجال

بے یارومدد گار پاگل سی کھڑی تھی
گنگ تھی زبان آنکھوں میں آنسو کی لڑی تھی

عمر بھر کی ھائے مری لٹ گئیی پونجی
بچوں کی صدا بار ھا کانوں میں گونجی

عید آے گی تو پانچ روز چھٹی کریں گے
مانی نہ بات آپ نے تو کٹی کریں گے

وہ عید سے پہلے ھی رستے میں کھو گئے
بچے مرے مکان کے ملبے میں سو گئے
-------------------------
ہر طرف ایک حشر برپا تھا سب ہی حیران تھے سب ہی دکھی تھے ... کیا کیا جاۓ؟؟ پھر حیرت ٹوٹی حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا گیا عمل ؟؟ کوئی عمل بھی ہو تو حالات قابو کے جایئں.. حکومت کو ہوش آیا .. حزب اختلاف کے ساتھ معاہدے شروع ہوۓ 
لوگوں کا چونکہ اس حکومت پر شروع سے ہي اعتماد نہيں تھا اور لوگوں کا يقين تھا کہ يہ حکومت چوروں کا ايک ٹولہ ہے اس لۓ دل ماننے کو تيارہي نہيں کہ زلزلہ زدگان کي بحالي کا سارا سسٹم فول پروف ہوگا اور حکومت کے لوگ اس ميں گھپلا نہيں کريں گے۔ ۔ پھر ہر جگہ سے امداد آنا شروع ہوگئی زلزلے کے موقع پر پوری قوم ایک ہو گئی تھی اور پھر ذمہ داری کا احساس حکومتی سطح سے آگے بڑھا نوجوانوں نے گلی محلے میں گروپس بنا کر سامان اکٹھا کرنا شروع کیا ٹرکوں پر ٹرک بھر بھر کر جارہے تھے ... لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات بھی تھے اور انھیں یہی محسوس ہوتا تھا کہ ہم بھیج دیں اور سامان پہنچے ہی نہ ؟؟؟ مگر پھر اگلے خالی ٹرک کے آجانے کا شور اٹھتا اور وہ سب بھول بھال کر اپنا سارا سرمایہ اپنوں تک پہنچنے کی فکر میں لگ جاتے !
سامان لے جانے والے ٹرکوں پر ملی نغمات لگے تھے نوجوانوں کے چہرے شدت جذبات سے سرخ تھے کچھ کر گزرنے کا خیال انھیں توانائی بخش رہا تھا 
وطن کی مٹی گواہ رہنا گواہ رہنا !
" یا الله رحم ! " عطیہ کی امی سجدے میں گری اپنے رب سے رحم کی درخواست کر رہی تھیں اور عطیہ اپنے جہیز کے بکس کے پاس بیٹھی سامان نکالتے ہوۓ ، وقفے وقفے سے باہر سے انے والی قوم کی محبت سے سرشار آوازیں سن رہی تھی ....
اے میرے جنت نشین عزیزوں
وہ ساری مائیں وہ ساری بہنیں
بزرگ سارے وہ سارے بچے
جو تم نے چھوڑے
ہمارے ہی درمیاں بسے ہیں
ہمارے ہی درمیاں بسیں گے
سبھی وسائل کو یکجا کر کے
سبھی مسائل کو حل کریں گے
یہ تمہاری امانتیں ہیں
امانتوں کو سنبھال رکھنا
ہماری تہذیب ہے پُرانی
اے میرے جنت نشین عزیزوں 
یہ عہد ہم تم سے کر رہے ہیں
یہ عہد ہم تم سے کر رہے ہیں
اسی دوران عطیہ کے ابو نے نے ٹی وی کھول کر دیکھنا شروع کیا تا کہ پتا چل سکے کہ کتنا نقصان ہوا ہے اور تمام ٹی وی چینل پر بالا کوٹ ،آزاد کشمیر مظفر آباد میں سب سے زیادہ تباہی کا بتا رہے تھے ...اور اس کے بعد جب اگلے دن جگہ جگہ لاشیں دیکھا رہے تہے اس کے بعد ٹی وی پر لوگوں کے گھر دکانیں سب کچھ ختم ہو گیا اور کتنے ہی معصوم بچے بھی اس زلزلے کی نظر ہوگئے ایک لڑکا زلزلے کا حال بتا رہا تھا عطیہ نے دل تھام کر سننا شروع کیا .
" میں صبح جب اٹھا تو بہت تیز ہوا چل رہی تھی ہر طرف اداسی چھائی ہوئی تھی -جیسے ابھی کچھ برا ہونے والا ہے اور وہی ہوا تھوڑی ہے دیر بعد جب میں گھر میں اپنی امی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا -کہ امی آج دن کچھ اداس سا لگ رہا ہے امی نے کہا ہاں مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے اس کے بعد اچانک سے ایک زور دار جھٹکا آیا اور سب کچھ ہلا کر رکھ دیا میں نے اپنی امی کا ہاتھ پکڑا اور ایک درخت کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ درخت اتنی تیزی سے ہل رہا تھاجیسے ہمیں بھی ساتھ اچھال رہا ہو ایک عجیب سا خوف انے لگا زمین جیسے اچھل رہی ہو اس کے بعد زلزلہ تو تھم گیا لیکن جب آفٹر شاکس کا سلسلہ شروع ہوا تو لوگوں کی رات کی نیندیں اڑ گیئں لوگ خوف زدہ ہو گئے تہے کہ کہیں پھر سے زوردار زلزلہ نہ ا جائے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا !" عطیہ کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں ..
پھر کچھ سروے کرنے والی ٹیموں نے بتانا شروع کیا ....
" اس کے بعد جب ہم ایبٹ آباد گئے تو وہاں بھی تباہی مچی ہوئی تھی اور لوگ بہت ہی خوف زدہ تہے اس زلزلے نے لاکھوں لوگوں کی جان لی اور ہزاروں لوگ معذور ہوۓ اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ... ہمارے مُلک کے ہزاروں نہیں ، لاکھوں لوگ اِس وقت عجیب و غریب کیفیت میں مُبتلا ہیں ، ماؤں کے بچے بِکھر گئے ہیں ، گھروں کے گھر برباد ہو گئے ہیں ، لوگ برباد ہو گئے ہیں۔ کئی لاکھ ایسے لوگ ہیں جو کہ اِس وقت خوراک کے مُنتظر ہیں۔ اس وقت ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم ایک جسم کی مانند ہیں اور اپنے ملک کے ہر فرد کا دکھ ایسے ہی محسوس کرتے ہیں جیسے آنکھ کی تکلیف سارا جسم محسوس کرتا ہے ! آپکی بھیجی ہوئی ایک چھوٹی سی مالی اور غذائی مدد بھی انکے لئے آپکا تحفہ ہوگا ایک کلو چاول کا پیک یا ایک چادر ہی سہی ! " کسی پروگرام کے میزبان کی بات پر عطیہ کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ ٹپکا اور اسکے ہاتھ میں پکڑی رلی میں جذب ہوگیا ! 
میزبان نے پھر کہنا شروع کیا 
" میری گذارش اِس میں یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر اعتماد کا بُحران بھی ہو تو لوگوں کے اندر ایک ایسی طاقت ہونی چاہیئے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور ایسے راستے تلاش کریں کہ جن سے بہرحال اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے پہنچ سکیں۔ اِس المیے میں اپنا کردار مجھے بھی ادا کرنا ہے ، آپ کو بھی کرنا ہے ، ہر شخص کو ادا کرنا ہے۔ اِس میں اگر اِتنا سخت اخلاقی بُحران پیدا ہو گیا ہے کہ ریاست پر ، اُس کی مشینری پر لوگوں کا اعتماد نہیں رہا تو بہرحال خدا کی زمین خالی نہیں ہو جاتی۔ ابھی بھی ایسے ذرائع موجود ہیں۔ آخر ریڈکراس کی تنظیم موجود ہے ، بعض ایسی جماعتیں اور تنظیمیں موجود ہیں جن پر لوگ کسی حد تک اعتماد کرتے ہیں۔ تو میرا احساس یہ ہے کہ آگے بہرحال بڑھنا چاہیئے ، راستے تلاش کرنے چاہیئں۔ راستے بند نہیں ہو جاتے۔
یہ ہم جانتے ہیں کہ جس علاقے میں اس وقت آفت ہے وہاں کے اکثریتی علاقے ایسے ہیں جن کی خواتین گھروں سے باہر نہیں آتیں۔ آج وہ خواتین کھلے آسمان تلے بیٹھی ہیں۔ تو وہاں سائبان کی بہت ضرورت ہے۔ اور یہ میں اور آپ نہ بھولیں کہ یہ میرے اور آپ کے گھر کو خواتین بھی ہو سکتی تھیں یا ہو سکتی ہیں۔ نیکیوں میں اپنا حصّہ ڈالیے الله آپکو سات گنا لوٹانے کا وعدہ کر چکا ہے "
عطیہ نے اپنے سامان کو ایک ڈبے میں بند کر کے آخری گرہ لگانے سے پہلے اپنی جان سے پیاری رلی کو غور سے دیکھا (اتنی حسین رلی ! کیا پتہ سامان پہنچ بھی پاۓ یا نہیں؟؟ کوئی اور ہی اڑا لے جاۓ بچ میں؟ خواہ مخواہ دے دوں میں ) پھر ایک سر جھٹکتے ہوۓ سے اس نے وہ رلی تہہ کی اور باقی سامان میں باندھ دی ! 
مں یقرض الله قرضا حسنا ! میں اپنے ہی لوگوں کو اپنی پسند کی چیز نہ دی تو اللہ کو کیا جواب دوں میں نے اللہ کی راہ میں اپنوں کو کیا دیا؟؟ سب کی نیت اسکے ساتھ مگر اجر تو اللہ کے زمے ہوا ناں؟؟
وہ اس ڈبے کو بند کر کے امی کے پاس آئی " امی یہ سامان بھی ٹرک میں رکھوا دیں یہ ہماری طرف سے ہموطنوں کو حقیر سا نذرانہ ہوگا " 
امی نے جانماز لپٹتے ہوۓ نم آنکھوں کے ساتھ اسکو دیکھا " یہ تو تمہارا .. " وہ اتنا کہہ کر رک گئیں 
"امی ہمارے گھر والے مشکل میں ہیں میری استطاعت بس اتنی ہی ہے، بے جا جہیز تو ویسے بھی ناپسددہ چیز ہے دین کی نگاہ میں اور وہ بھی جب ماں کا جگر چھلنی ہو تو جہیز بچانا ٹھیک ہے یا ماں کی پکار پر لبّیک کہنا؟؟ " امی نے خاموش مگر سوالیہ نگاہ اسکی طرف ڈالی عطیہ انکا سوال پڑھ کر مسکرادی "امی ! اگر کوئی ان مشکل حالات میں بھی بغیر جہیز کے مجھے قبول نہیں کرتا تو اسکا قبول نہ کرنا میرے حق میں بہتر ہے ناں؟ " بس آپ ابو سے کہیں یہ سامان باہر بھیجیں نیا ٹرک لوڈ کیا جارہا ہے کچھ تو قرض ادا ہو ہی جاۓ گا " امی نے عطیہ کے ماتھے پر پیار کیا اور سامان لے کر باہر نکل گئیں ! 
__________________*_______________* _____________
اے میرے جنت نشین عزیزوں
ہمیں یہ دنیا بتا رہی ہے
کہ تم پہ اپنے پہاڑ ٹوٹے ۔۔۔ تمہاری اپنی چھتوں نے تم کو کچل دیا ہے
زمیں نے تم کو نگل لیا ہے
سو مر گئے تم
یقین جانو یہ سب غلط ہے 
مرے نہیں تم ۔۔۔۔ مرے تو وہ ہیں ۔۔۔ جو بچ رہے ہیں
تمہاری فرقت میں جی رہے ہیں
تمہیں خبر کیا کہ مرنے والوں کے بعد جینا
عذاب ہے ۔۔۔۔۔اور عذاب ایسا کہ جس پہ آئے
سنبھل نہ پائے ۔۔۔ وہ مرنا چاہے تو مرنا پائے
اے میرے جنت نشین عزیزوں ۔۔۔ مرے نہیں تم مرے تو ہم ہیں
یقین نہ آئے تو اپنی روحوں کو بھیج دیکھو
وطن میں ہیں جس قدر بھی آنکھیں
وہ آنسوؤں سے بھری ہوئی ہیں
تمام چہروں پہ وہ قیامت جو تم پہ ٹوٹی
بہت نمایا لکھی ہوئی ہے
لبوں کو دیکھو تو یوں لگے گا کہ مسکرائے
انہیں تو صدیاں گزر گئی ہیں ! 
______________* _____________ * ____________
عطیہ نے کچن میں برتن سمیٹتے ہوۓ ٹی وی پر کسی کی آواز سنی اور مسکرانے لگی 
"شمال کے علاقوں میں کشمیر کی تاریخ کا بد ترین زلزلہ آیا سینکڑوں کوہستانی بستیاں ملیامیٹ ہوگئیں مگر اپنے ہم وطنوں کا جذبہ دیکھ کر میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اسقدر نقصان کے باوجود ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے انشااللہ . ان قدرتی آفتوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو کوئی سندھی سندھی رہتا ہے نہ کوئی پنجابی ، نہ کوئی پٹھان نہ کوئی بلوچی .... 
"ہم پاکستانیوں کا کچھ اعتبار نہیں اگرچہ تھوڑے پاگل ہیں لیکن کچھ بھی کر سکتے ہیں "

---------------------------------------------------------------------------------