پہلی اڑان
"زندگی کبھی بھی اتنی آسان نہ تھی ہمیشہ مصائب ایک کے بعد ایک قطار لگائے کھڑے ملے مگر یہ تو انتہا ہے نا بن باپ کی بچی! ارے وہ تو ناداں ہے معصوم ہے مگر تم تو سمجھدار ہو؟ پرائے دیس میں بھیج رہی ہو کوئی مصیبت آن پڑی تو کیا کرو گی" امّاں کی جھنجلائی ہوئی آواز پر سلطانہ نے کان نہیں دھرا اسکی انگلیاں تیزی سے فریم میں پھنسے ہوئے کپڑے پر کڑھائی کرتے ہوئے دھاگوں سے الجھی ہوئی تھیں اور ذہن ہادیہ کے مستقبل میں !
الله کی حکمت وہی جانے .. سلطانہ کو الله نے صرف ایک ہی اولاد سے نوازا تھا مگر اسے بھی دونوں ہاتھوں سے محروم رکھا تھا . سلطانہ اور اسکے شوہر ایاز نے کبھی اس بات کا گلہ نہیں کیا تھا ایاز نے ہمیشہ اپنی بیٹی کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھا ہر سرد و گرم سے بچا کے رکھا مگر اسکے باوجود اسے سب کچھ سکھایا ہاتھوں کے بغیر بھی ہادیہ ایک صحت مند انسان کی طرح سارے کام سرانجام دیتی تھی وہ اپنے ہاتھوں کی جگہ پیروں کا استعمال کرتی. منہ ہاتھ دھونا ، لکھنا پڑھنا ،اپنے کپڑے استری کرنا سب ہی کچھ اسکے لیے بہت آسان تھا ہادیہ کو ڈرائنگ کا بہت شوق تھا دھیرے دھیرے اسکا شوق اتنا بڑھا کہ ساتویں جماعت تک اپنے پیروں کی مدد سے وہ انتہائی خوبصورت پینٹنگ بنانے لگی تھی . ایاز نے ہمیشہ اسے نماز پڑھ کر سب سے پہلے الله سے مدد مانگنا سکھایا تھا ! اسے جب کوئی مشکل پیش آتی وہ ضرور نماز پڑھ کر دعا کرتی اور الله پر اس اندھے اعتماد نے اسے کبھی مایوس نہیں ہونے دیا تھا . الله کی مدد اور اپنے والدین کی طرف سے ملنے والے اعتماد نے اسکی شخصیت کو نکھار کر چار چاند لگا دیے تھے اس نے کبھی خود کو کمتر نہیں سمجھا . مگر جب وہ میٹرک میں آئی تو ایک حادثے میں ایاز کا انتقال ہوگیا سلطانہ کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا . وہ ہادیہ کو لے کر اپنی امّاں کے پاس آگئی انکی زندگی پہلے ہی بہت تنگ تھی مگر بیٹی کی اس مشکل گھڑی میں انہوں نے اسے سہارا دیا. انکا ایک آبائی وسیع و عریض گھر تھا جس کے کھلے اور کشادہ صحن میں لگے نیم اور پیپل کے درخت اپنی ٹھنڈی چھاؤں سے گھر پر سایہ کیے رکھتےتھے. پیپل کے درخت پر چڑیوں کا ایک جوڑا رہتا تھا کچھ ہی دن پہلے اس میں سے ننھی آوازوں نے انڈے سے بچوں کے نکلنے کا پتہ دیا تھا . سلطانہ اکثر چڑیوں کی مخصوص آوازوں اور کھلانے کے طریقوں پر غور کرتی اور مسکراتی رہتی تھی.
ہادیہ انٹرنیشنل لیول پر منعقد ہونے والے پینٹنگ کے مقابلے میں حصہ لینا چاہ رہی تھی جبکہ سلطانہ گھبراہٹ کاشکار تھی کہ دونوں ہاتھوں سے معذور بچی بھلا اتنے بڑے پیمانے پر نارمل بچوں کے مقابلے پر پینٹنگ کرسکے گی؟" یہ خیال اسے ایاز کی زندگی میں کبھی نہ آتا مگر شاید ایاز کی موت نے اسے بزدل بنا دیا تھا وہ اپنی گھبراہٹ ظاہر نہیں کررہی تھی اور اس نے بظاہر ماں لیا تھا کہ ہادیہ اس مقابلے میں شریک ہوگی. جب سے یہ بات امّاں نے سنی تھی بہت ناراض ہورہی تھیں انکے خیال میں ہادیہ کو گھر پر مکمل اپنی نگرانی میں رکھنا چاہیے اسے بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہے .. امّاں کا انکار اور ہادیہ کا اصرار سلطانہ کو شش و پنج میں ڈالے ہوئے تھے .
اسی دم چوں چوں کی بے شمار آوازوں نے جیسے کھلے صحن میں شور سا ڈال دیا امّاں اپنی جھنجلاہٹ اور سلطانہ اپنی الجھنیں بھول کر چڑیوں کو ڈھونڈنے لگیں " ارے کل تک تو منہ میں چونچ ڈال ڈال کر کھلا رہے تھے بچوں کو آج دیکھو کیسے سر پر سوار ہو کر چلا رہے ہیں کہ اڑتا ہے یا ایک لگاؤں ؟" امّاں ان پرندوں کو دیکھ کر محبت سے مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھیں سلطانہ نے غور سے کچھ دیر یہ منظر دیکھا تھا . کچھ دنوں پہلے کی تو بات ہے جب بچے انڈوں سے باہر نکلے تو ماں باپ کیسے ہر دم انکی حفاظت کیا کرتے تھے اور آج جب انکے اڑان بھرنے کا وقت آیا تو سارے خوف بھلا کراسے اڑنا سکھا رہے تھے.
"السلام علیکم " ہا دیہ کی آواز پر سلطانہ نے چونک کر اسے دیکھا بجھا ہوا چہرہ پژمردہ انداز یہ وہ ہادیہ تو نہیں تھی جسے اس نے اور اسکے شوہر نے زمانے کی سختیوں کے سامنے جم کر کھڑے ہونا سکھایا تھا یہ تو ایک مایوس سی بچی ہے جس کی ماں اسے صرف ایک کمزوری کی وجہ سے اسکے شوق سے محروم کرنا چاہتی تھی . چوں چوں کا شور اب بھی باقی تھا دو بچے اڑ چکے تھے ایک باقی تھا خوف اور گھبراہٹ کا شکار چڑیا بار بار ہوا میں تیرتی اسے اسکی منزل کا پتہ بتاتی اور پھر واپس آکر اسکے پاس بیٹھ جاتی چوں چوں چوں میں چھپی ڈانٹ ڈپٹ اور شفقت آمیز دھمکیاں!! سلطانہ نے نظروں کا رخ موڑ کر ہادیہ کی طرف دیکھا وہ بیگ ایک طرف رکھ کر پیروں کی مدد سے جوتے موزے اتار رہی تھی پھر اسکا رخ صحن میں لگے نلکے کی طرف ہوگیا " امی کل آخری تاریخ ہے فارم جمع کروانے کی آپ تو شاید اجازت نہ دیں نانی جان بھی نہ مانیں تو میں نے سوچا ہے کہ منع کردوں گی حالانکہ آج تو سر مبشر بھی آئے تھے مجھے خاص کر حصہ لینے کا کہہ رہے تھے مقابلے میں" وہ بہت آرام سے سٹول پر بیٹھی اپنے پیروں کی مدد سے وضو کر رہی تھی وہ نماز کی بہت پابند تھی اس نے کبھی ظہر کی نماز ادا کیے بغیر کھانا نہیں کھایا تھا . ایاز نے اسے ہمیشہ سب سے پہلے الله سے مانگنا سکھایا تھا یہ سبق وہ کبھی نہیں بھولی تھی ! ایک مطمئن مسکراہٹ سلطانہ کے لبوں پر بکھر گئی . امّاں بھی جیسے تڑپ کر رہ گئیں اتنی سنجیدہ تو وہ کبھی نہیں رہی تھی.
چوں چوں چوں ... آوازیں کانوں میں مستقل آرہی تھیں . الله نے انسان کے سوا ہر جاندار کو تعلیم دے کر بھیجا ہے کیسے کھانا ہے کیسے رہنا ہے کیسے پالنا ہے کیسے تربیت کرنا ہے کیسے راہ دکھانا ہے !! انسان کو سیکھنا پڑتا ہے وقت لگتا ہے مگر وہ سیکھ جاتا ہے اگر سیکھنا چاہے!!
اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا۔
انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔
پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔
جس نے قلم سے سکھایا۔
انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔
" ہادیہ ! تم اپنے سر مبشر کو کہنا تمہارا فارم فل کردیں ضروری ڈاکومنٹس مجھے بتادیں میں بھیج دوں گی .. ایاز اگر آج ہوتے تو ہم فارم کی آخری تاریخ کا انتظار نہ کررہے ہوتے ! کیوں امّاں؟؟ " سلطانہ نے اپنی امّاں کی طرف دیکھا جو جواب دیے بغیر آگے بڑھ کر ہادیہ کا ماتھا چوم رہی تھیں . چوں چوں کی آوازیں رک گئیں تھیں سلطانہ نے گردن موڑ کر دیکھا وہ ننھا منا سا ڈرپوک بچہ اڑان بھر چکا تھا ماں باپ کی خوشی کی انتہا نہیں تھی .
الله کی حکمت وہی جانے .. سلطانہ کو الله نے صرف ایک ہی اولاد سے نوازا تھا مگر اسے بھی دونوں ہاتھوں سے محروم رکھا تھا . سلطانہ اور اسکے شوہر ایاز نے کبھی اس بات کا گلہ نہیں کیا تھا ایاز نے ہمیشہ اپنی بیٹی کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھا ہر سرد و گرم سے بچا کے رکھا مگر اسکے باوجود اسے سب کچھ سکھایا ہاتھوں کے بغیر بھی ہادیہ ایک صحت مند انسان کی طرح سارے کام سرانجام دیتی تھی وہ اپنے ہاتھوں کی جگہ پیروں کا استعمال کرتی. منہ ہاتھ دھونا ، لکھنا پڑھنا ،اپنے کپڑے استری کرنا سب ہی کچھ اسکے لیے بہت آسان تھا ہادیہ کو ڈرائنگ کا بہت شوق تھا دھیرے دھیرے اسکا شوق اتنا بڑھا کہ ساتویں جماعت تک اپنے پیروں کی مدد سے وہ انتہائی خوبصورت پینٹنگ بنانے لگی تھی . ایاز نے ہمیشہ اسے نماز پڑھ کر سب سے پہلے الله سے مدد مانگنا سکھایا تھا ! اسے جب کوئی مشکل پیش آتی وہ ضرور نماز پڑھ کر دعا کرتی اور الله پر اس اندھے اعتماد نے اسے کبھی مایوس نہیں ہونے دیا تھا . الله کی مدد اور اپنے والدین کی طرف سے ملنے والے اعتماد نے اسکی شخصیت کو نکھار کر چار چاند لگا دیے تھے اس نے کبھی خود کو کمتر نہیں سمجھا . مگر جب وہ میٹرک میں آئی تو ایک حادثے میں ایاز کا انتقال ہوگیا سلطانہ کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا . وہ ہادیہ کو لے کر اپنی امّاں کے پاس آگئی انکی زندگی پہلے ہی بہت تنگ تھی مگر بیٹی کی اس مشکل گھڑی میں انہوں نے اسے سہارا دیا. انکا ایک آبائی وسیع و عریض گھر تھا جس کے کھلے اور کشادہ صحن میں لگے نیم اور پیپل کے درخت اپنی ٹھنڈی چھاؤں سے گھر پر سایہ کیے رکھتےتھے. پیپل کے درخت پر چڑیوں کا ایک جوڑا رہتا تھا کچھ ہی دن پہلے اس میں سے ننھی آوازوں نے انڈے سے بچوں کے نکلنے کا پتہ دیا تھا . سلطانہ اکثر چڑیوں کی مخصوص آوازوں اور کھلانے کے طریقوں پر غور کرتی اور مسکراتی رہتی تھی.
ہادیہ انٹرنیشنل لیول پر منعقد ہونے والے پینٹنگ کے مقابلے میں حصہ لینا چاہ رہی تھی جبکہ سلطانہ گھبراہٹ کاشکار تھی کہ دونوں ہاتھوں سے معذور بچی بھلا اتنے بڑے پیمانے پر نارمل بچوں کے مقابلے پر پینٹنگ کرسکے گی؟" یہ خیال اسے ایاز کی زندگی میں کبھی نہ آتا مگر شاید ایاز کی موت نے اسے بزدل بنا دیا تھا وہ اپنی گھبراہٹ ظاہر نہیں کررہی تھی اور اس نے بظاہر ماں لیا تھا کہ ہادیہ اس مقابلے میں شریک ہوگی. جب سے یہ بات امّاں نے سنی تھی بہت ناراض ہورہی تھیں انکے خیال میں ہادیہ کو گھر پر مکمل اپنی نگرانی میں رکھنا چاہیے اسے بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہے .. امّاں کا انکار اور ہادیہ کا اصرار سلطانہ کو شش و پنج میں ڈالے ہوئے تھے .
اسی دم چوں چوں کی بے شمار آوازوں نے جیسے کھلے صحن میں شور سا ڈال دیا امّاں اپنی جھنجلاہٹ اور سلطانہ اپنی الجھنیں بھول کر چڑیوں کو ڈھونڈنے لگیں " ارے کل تک تو منہ میں چونچ ڈال ڈال کر کھلا رہے تھے بچوں کو آج دیکھو کیسے سر پر سوار ہو کر چلا رہے ہیں کہ اڑتا ہے یا ایک لگاؤں ؟" امّاں ان پرندوں کو دیکھ کر محبت سے مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھیں سلطانہ نے غور سے کچھ دیر یہ منظر دیکھا تھا . کچھ دنوں پہلے کی تو بات ہے جب بچے انڈوں سے باہر نکلے تو ماں باپ کیسے ہر دم انکی حفاظت کیا کرتے تھے اور آج جب انکے اڑان بھرنے کا وقت آیا تو سارے خوف بھلا کراسے اڑنا سکھا رہے تھے.
"السلام علیکم " ہا دیہ کی آواز پر سلطانہ نے چونک کر اسے دیکھا بجھا ہوا چہرہ پژمردہ انداز یہ وہ ہادیہ تو نہیں تھی جسے اس نے اور اسکے شوہر نے زمانے کی سختیوں کے سامنے جم کر کھڑے ہونا سکھایا تھا یہ تو ایک مایوس سی بچی ہے جس کی ماں اسے صرف ایک کمزوری کی وجہ سے اسکے شوق سے محروم کرنا چاہتی تھی . چوں چوں کا شور اب بھی باقی تھا دو بچے اڑ چکے تھے ایک باقی تھا خوف اور گھبراہٹ کا شکار چڑیا بار بار ہوا میں تیرتی اسے اسکی منزل کا پتہ بتاتی اور پھر واپس آکر اسکے پاس بیٹھ جاتی چوں چوں چوں میں چھپی ڈانٹ ڈپٹ اور شفقت آمیز دھمکیاں!! سلطانہ نے نظروں کا رخ موڑ کر ہادیہ کی طرف دیکھا وہ بیگ ایک طرف رکھ کر پیروں کی مدد سے جوتے موزے اتار رہی تھی پھر اسکا رخ صحن میں لگے نلکے کی طرف ہوگیا " امی کل آخری تاریخ ہے فارم جمع کروانے کی آپ تو شاید اجازت نہ دیں نانی جان بھی نہ مانیں تو میں نے سوچا ہے کہ منع کردوں گی حالانکہ آج تو سر مبشر بھی آئے تھے مجھے خاص کر حصہ لینے کا کہہ رہے تھے مقابلے میں" وہ بہت آرام سے سٹول پر بیٹھی اپنے پیروں کی مدد سے وضو کر رہی تھی وہ نماز کی بہت پابند تھی اس نے کبھی ظہر کی نماز ادا کیے بغیر کھانا نہیں کھایا تھا . ایاز نے اسے ہمیشہ سب سے پہلے الله سے مانگنا سکھایا تھا یہ سبق وہ کبھی نہیں بھولی تھی ! ایک مطمئن مسکراہٹ سلطانہ کے لبوں پر بکھر گئی . امّاں بھی جیسے تڑپ کر رہ گئیں اتنی سنجیدہ تو وہ کبھی نہیں رہی تھی.
چوں چوں چوں ... آوازیں کانوں میں مستقل آرہی تھیں . الله نے انسان کے سوا ہر جاندار کو تعلیم دے کر بھیجا ہے کیسے کھانا ہے کیسے رہنا ہے کیسے پالنا ہے کیسے تربیت کرنا ہے کیسے راہ دکھانا ہے !! انسان کو سیکھنا پڑتا ہے وقت لگتا ہے مگر وہ سیکھ جاتا ہے اگر سیکھنا چاہے!!
اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا۔
انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔
پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔
جس نے قلم سے سکھایا۔
انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔
" ہادیہ ! تم اپنے سر مبشر کو کہنا تمہارا فارم فل کردیں ضروری ڈاکومنٹس مجھے بتادیں میں بھیج دوں گی .. ایاز اگر آج ہوتے تو ہم فارم کی آخری تاریخ کا انتظار نہ کررہے ہوتے ! کیوں امّاں؟؟ " سلطانہ نے اپنی امّاں کی طرف دیکھا جو جواب دیے بغیر آگے بڑھ کر ہادیہ کا ماتھا چوم رہی تھیں . چوں چوں کی آوازیں رک گئیں تھیں سلطانہ نے گردن موڑ کر دیکھا وہ ننھا منا سا ڈرپوک بچہ اڑان بھر چکا تھا ماں باپ کی خوشی کی انتہا نہیں تھی .