اتوار، 31 جنوری، 2016

.نالہ فریاد میرا ..
========= 
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے 
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے 
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیرگیا نالہء فریاد مرا
... heart emoticon 
"أَمَّنْ يُجيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء" 
' " کون ہے جو بے قرار کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ بے قرار اس کو آواز دیتا ہے اور کون ہے جو دور کرتا ہےاس کی مصیبت کو ؟"
تین دن سے ابو وینٹیلیٹر پر تھے . آج انھیں ہوش آیا تھا اور آج انکے پاس مجھے رکنا تھا جب میں ابو کی حالت کو دیکھنے MICU پہنچی تو ایک لمحے کو میری روح کانپ گئی سینکڑوں مشینوں کے درمیان جو چیز انکی زندگی کا احساس دلا رہی تھی وہ انکی آنکھیں تھیں میں انکے پاس گئی اور انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا انہوں نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور انکے ہونٹوں نے حرکت کرنے کی کوشش کی انکے منہ میں ایک موٹی سی ٹیوب لگی تھی جو انکی حلق سے ہوتی ہوئی سانس کی نالی سے گزر رہی تھی جسکی وجہ سے ہونٹ بند نہیں ہورہے تھے . میں سمجھ نہیں سکی انکی بات انہوں نے دوبارہ کوشش کی میں نے پوری توجہ مرکوز کر کے انھیں دیکھا اس اس لمحے میری سننے کی حس آنکھوں میں سمت آئی تھی اور میں نے سنا وہ ایک چار حرفی لفظ ادا کر رہے تھے "پانی " میں ایک دم چلا اٹھی "ابو ! پانی؟" انکے چہرے پر بات سمجھے جانے کے سبب ہلکا سا اطمنان ابھرا اور وہ دوبارہ مزید جوش سے اپنے ہونٹوں کو حرکت دینے لگے میں نے قریب کھڑی مونیٹرز کو چیک کرتی نرس سے بے اختیاری میں کہا "یہ پانی مانگ رہے ہیں " اس نے میری طرف دیکھا "اپنے دماغ کا علاج کروائیں " اس نے تو صرف مجھے دیکھا تھا یہ جملہ تو اسکی آنکھوں نے کہا جو میں نے اپنی تیز ہوتی حسیات کے باعث سن لیا تھا پھر اس نے پلٹ کر ابو کو دیکھا ہلکا سا ہمدردی اور ترس کا تاثر اسکے چہرے پر نظر آیا اور معدوم ہوگیا میں جانتی تھی پانی ابو کے لیے زہر ہے اسوقت . 
"آپ مل چکی ہیں پیشنٹ سے اب آپ جائیں پلیز " نرس نے میری طرف دیکھ کر نرمی بھرا سخت جملہ ادا کیا میں نے ایک نظر ابو کی طرف ڈالی انکی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ نکل تھا اور چہرے پر لگی ہوئی بے شمار ٹیوبز کے پیچھے غائب ہوگیا "یا یا الله !یا ارحم الرحمین !" میرے دل نے پوری طاقت سے پکارا تھا 
"آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے اسے صاف کردیں " میں نرس سے کہہ کر الوداعی نظر ابو پر ڈال کر پلٹ آئی. دل و دماغ کی عجیب کیفیت تھی جو ناقابل بیان ہے ویٹنگ روم میں آکر اپنی تسبیح نکالی "کیا پڑھ رہی تھی میں؟" کچھ یاد نہ آیا مگر آنکھ سے آنسو اور تسبیح کے دانے گرنے لگے ابو ! میرے ابو ! میں نے آپکے مانگنے پر پانی نہیں دیا ! یا اللہ کب ناقدری کردی ہم نے اس نعمت کی ؟ کوئی بھی لمحہ کوئی بھی پل جب ہم نے ابو کی باتوں پر بیزاری ظاہر کی ہو میں اس پل کے لیے معافی مانگتی ہوں .. آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر تسبیح کے دانوں کے ساتھ لڑیاں بنا رہے تھے مجھے یاد آیا کہ ابو کھانے سے پہلے پانی پینے کے عادی تھے اگر کبھی ہم میں سے کوئی پانی رکھنا بھول جاتا تو بہت ناراض ہوتے . ہم سب بھی ابو کی ضرورت پوری کرنے کے لیے صرف انکی آنکھوں کے اشارے دیکھتے تہے .کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ابو پانی مانگیں گے اور میں نہیں دونگی . لیکن ..انسان کی بے بسی کی کوئی انتہا نہیں . اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی میرے شوہر کا فون تھا میں موبائل ہاتھ میں لے کر باہر آگئی "از ایوری تھنگ اوکے؟" انہوں نے پوچھا "جی سب ٹھیک ہے ڈاکٹرز بہت مطمئن ہیں پارٹلی وینٹ پر ہیں مگر .. مجھ سے ابو کی حالت دیکھی نہیں جارہی " میں ایک دم ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی انہوں نے مجھے کافی دیر سمجھایا جو مجھے سمجھ میں آیا یا نہیں مگر انکی پریشانی کا خیال کر کے میں نے انھیں سمجھ لینے کا یقین دلایا اور فون بند کر کے اپنی سیٹ پر واپس آگئی دوبارہ ہاتھ میں تسبیح اٹھائی دماغ میں صرف ابو کا بے بس انداز اور ماضی میں انکی پیار بھری ناراضگیاں تھیں جو کبھی کبھی ہمیں ناگوار بھی گزرتی تھیں "ابو کا جتنا بھی خیال رکھوں ذرا سی بات پر سب بھول جاتے ہیں وہ" ہم اکثر شکوہ بھی کرتے تھے مگر آج ابو کی وہ شفقت بھری ناراضگیاں یاد آرہی تھیں . ابو نماز کے اتنے پابند و شوقین تھے کہ ہڈی فریکچر ہونے کے باوجود نماز نہیں چھوڑی پھر آپریشن ہوا اس میں بھی انہوں نے وارڈ میں آتے ہی نماز کا حساب درست کیا " امید الله سے اچھی ہے " یہ انکا جملہ تھا جو وہ ہر کسی سے کہتے تھے پھر اچانک انھیں وومٹنگ ہوئی اور اسکی وجہ سے پانی پھیپڑوں میں چلا گیا اور انھیں آئی سی یو میں شفٹ کردیا گیا !
دوبارہ فون کی گھنٹی بجی تو میں نے تسبیح کے گرتے دانوں کو لمحے بھر کے لیے روکا دوسری طرف میری نند تھی "عنبر ! ہم نے دعا مکمل کرلی ہے تمہاری طرف سے کتنا شامل کریں؟" مجھے ایکدم ہی یاد آگیا کہ میں پہلے کیا پڑھ رہی تھی میں نے اپنے دماغ کو یکسو کیا اور اگلا دانہ گرانے سے پہلے اپنی زبان پر جاری ہونے والے الفاظ پر غور کیا "یا الله ! یا ارحم الرحمین ! میرے ابو کی پیاس بجھا دے " میری زبان پر جیسے اس دن یہ الفاظ چپک گئے تھے مجھے سری دعائیں بھول گئیں تھیں سواۓ اس دعا کے .میں گھر آگئی دن گزرا رات آئی اور رات کو بھی خواب میں ،میں یہی الفاظ ادا کرتی رہی .. 
اگلا دن نئی امیدوں کے ساتھ طلوع ہوا میرے شوہر ہسپتال گئے تھوڑی دیر بعد انکا فون آیا "مجھے تو کچھ بہتری نظر نہیں آرہی ابو ہوش میں نہیں ہیں" میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ انھیں حوصلہ دیا "انکی جاگ بہتر ہے اب آپکو اتفاقاً سوۓ ہوۓ ہی ملتے ہیں " انہوں نے ٹھنڈی سانس بھر کر فون بند کردیا صرف آدھے گھنٹے بعد دوبارہ موبائل بجا 
میں نے ڈرتے ڈرتے فون اٹھایا " ابو کی طبیعت ماشااللہ بہتر ہے انکو وینٹ سے مکمل طور پر ہٹا دیا ہے اور منہ میں لگی ٹیوب بھی نکال لیا ہے انہوں نے مجھ سے بات کی ہے دن تاریخ پوچھا ہے اور وقت کا بھی معلوم کیا ہے پھر نماز کا پوچھا ہے . " اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے میں نے دو تین بار آوازیں دیں دوسری طرف ہسپتال کے مخصوص شور شرابہ کی آوازیں آرہی تھیں مگر انکا کوئی جواب نہیں آرہا تھا . پھر مجھے عجیب سا احساس ہوا " آپ رو رہے ہیں ؟" کل مجھے حوصلہ دینے والا آج خود رو رہا تھا ابو کی تمام مشکل گھڑیوں کے وہ خود گواہ رہے ہیں ہمت و حوصلے کا سمبل. آج جانے کتنے دنوں پر ابو کی آواز سنی تھی محنت سوارت ہوجاۓ تو ایسے ہی رونا آجاتا ہے ! میں فورا ہی گھر میں خوشی کی اطلاع دے کر خود ہسپتال پہنچ گئی . گارڈ اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا مگر تھوڑی منتیں کرنے کے بعد اس نے جانے کی اجازت دے ہی دی میں اندر پہنچی تو ابو نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں انھیں نبیلایز کیا جارہا تھا اور انکے چہرے پر ماسک لگا ہوا تھا "
"آپ انہیں آواز دیں انہیں جگائیں ان سے باتیں کریں " کل والی نرس نرم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ مجھ سے مخاطب تھی "آج ہم انہیں شام تک پانی بھی دیں گے " اسکی مسکراہٹ گہری ہوگئی تو میں بھی مسکرا دی "انشااللہ" 
"اصل میں میم ! ہم ذمہ داریوں کی وجہ سے رویہ سخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ورنہ پیشنٹ کو ریکور ہواتے دیکھ کر ہمیں آپ سے زیادہ خوشی ہوتی ہے " وہ کہتے ہوۓ آگے چلی گئی میں جانتی تھی وہ سچ کہہ رہی ہے پھر میں نے ابو کو آواز دی ابو نے آنکھ کھولی مجھے دیکھ کر میری طرف ہاتھ بڑھایا انکا ہاتھ سرد تھا مگر بے چینی نہیں تھی انہوں نے کچھ کہا مگر ماسک کی وجہ سے واضح نہیں تھا مجھے صرف "امی " سمجھ میں آیا میں نے اندازے سے کہا "جی امی ٹھیک ہیں " انہوں نے مسکرا کر جیسے میری کم عقلی کا ماتم کیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی انگلی سے اس پر کچھ لکھنے لگے میں نے انکی انگلیوں کی حرکت پر دھیان دیا " الف .. میم .. یے .. دال ... امید " میری آنکھوں میں آنسو آگئے پھر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ میں سمجھی یا نہیں؟ میں نے سر اثبات میں ہلایا اب کے انکا جملہ مجھے سمجھ میں آگیا انہوں نے دوبارہ کہا " امید..Hope ...امید ! امید الله سے اچھی ہے" میرے بہادر ابو! میں نے انکا ہاتھ چوما اور روم سے باہر آگئی. ان چند دنوں میں ہمیں کیا کیا احساس ہوا ؟ میں شاید بیان نہیں کرسکوں پر بس اتنا ہی کہ آج ابو نے مجھ سے پانی کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا ! انکی پیاس بجھ گئی تھی کب اور کیسے؟ میں نے تو ڈھنگ سے تسبیح بھی نہیں پڑھی تھی کوئی ذکر بھی نہیں کیا تھا بس بے قرار دل کے ساتھ اپنی ہی زبان میں اپنی غرض مانگتی رہی اور اس نے کتنی آسانی سے عطا بھی کردی.حیات اور موت کا وقت مقرر ہے مگر اسکے درمیان کی تکالیف دل کی بیقراری کے ساتھ مانگی جانے والی دعائیں دور کردیتی ہیں .الله کا وعدہ سچا ہے !
"أَمَّنْ يُجيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء" 
' " کون ہے جو بے قرار کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ بے قرار ہوکر اس کو آواز دیتا ہے اور کون ہے جو دور کرتا ہےاس کی مصیبت کو ؟"
جب بھی دعا کو ہاتھ اٹھائیں الفاظ نہیں دل کا استمعال کریں رٹی رٹائی دعائیں مانگ کر کام نہیں نمٹائیں . یقینا مسنون دعائیں یاد کرنا چاہیے اور اسکی فضیلت اپنی جگہ ہے مگر ایک کیفیت کے ساتھ زبان کو آنسوؤں سے تر کر کے الله سے مخاطب ہوں پھر دیکھیں کہ کیسے وہ قبول کرے گا آپکی دعا ! انشااللہ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں